غسل کا مسنون طریقہ اور آداب

غسل کے آداب اور سنتیں

صبح اُٹھنے کے بعد بعض مرتبہ غسل جنابت (جو فرض ہے) کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر خواب میں احتلام ہو جائے اور صبح اُٹھ کر کپڑوں پر منی کا اثر دیکھے تو غسل واجب ہوگا اور اگر خواب میں احتلام ہوا مگر صبح اُٹھ کر کپڑوں پر کچھ بھی اثر نہ دیکھا تو غسل واجب نہیں ہوگا اور اگر احتلام اسے یاد نہیں مگر جب صبح اُٹھا تو کپڑوں پر ایسے آثار دیکھے جیسے کہ احتلام ہوا ہو، جب بھی غسل واجب ہوگا۔ واضح رہے کہ یہی مسئلہ عورتوں کے لیے بھی ہے کیونکہ بعض عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔
اس مسئلہ کی مزید تفصیلات کے لیے کسی فقیہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ کیونکہ یہاں مسائل پر بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ غسل کی فرضیت اور اس کا مسنون طریقہ بیان کرنا مقصود ہے۔
سورۃ مائدہ میں فرمایا: “وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا” ……۔
‘‘اور اگر تم کو جنابت ہو تو خوب اچھی طرح پاک ہو لو۔’’ (تفسیر عثمانی)
معلوم ہوا کہ جنبی ہونے کی بناء پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ الایہ کہ کوئی مجبوری ہو مثلاً بیمار ہے پانی کے استعمال سے جان کا خطرہ ہے یا بیماری کے بڑھنے کا خطرہ ہے یا پانی کے حصول میں دُشواری ہے۔ مثلاً جائے پانی پر دشمن کے حملہ کا خطرہ ہے یا پانی نہیں مل رہا ہے تو ایسی تمام صورتوں میں تیمم کرلے۔

تیمم کرنے کا مسنون طریقہ

پہلے پاکی کی نیت کرے، پھر پاک مٹی پر ہلکے سے دونوں ہاتھ مارے اور پورے منہ پر پھیرلے۔ اسی طرح دوبارہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کے پورے ہاتھ پر کہنی سمیت پھیرلے تو اس طرح تیمم غسل کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ ان مسائل کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے کتب فقہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
جس گھر میں جنبی ہو، وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے
بعض لوگ غسل کرنے میں سستی کر جاتے ہیں، یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ اگر فجر ہو جانے کے بعد آدمی غسل جنابت نہ کرے اور جنابت کی حالت میں پڑا رہے تو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

غسل کرنے کا مسنون طریقہ اور فرائض غسل :۔

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ فرماتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے، پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، پھر اُنگلیاں پانی میں ڈالتے، پھر انہیں نکال کر اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے تین چلو پانی لے کر سر میں ڈالتے اور پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (بخاری شریف )
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل شروع کرتے، اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، پھر استنجاء کرتے اور اس کے بعد وضو فرماتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ غسل میں پورے جسم کو دھونا فرض ہے حتیٰ کہ ایک بال کے برابر بھی جگہ خشک نہ رہ جائے، ناک اور منہ کے اندرونی حصے چونکہ جسم کے ظاہری حصے کہلاتے ہیں اس لیے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل جنابت میں فرض ہے۔ یوں غسل جنابت میں تین فرض ہوئے۔
۔1۔ کلی کرنا ۔
۔2۔ ناک میں پانی ڈالنا ۔
۔3۔ پورے جسم پر پانی ڈالنا۔ باقی تمام افعال جو روایات مذکورہ میں ہیں ‘‘سنن’’ کہلاتے ہیں۔

غسل کے آداب اور سنتیں

۔1۔ جسم کے جس حصے پر ناپاکی لگی ہوئی ہو، اس کو تین مرتبہ دھونا۔ (ترمذی)
۔2۔ پیشاب اور پاخانہ دونوں سے استنجے کرنا (خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو)۔ (ترمذی)
۔3۔ شرمگاہ اور نجاست وغیرہ دھونے کے بعد بائیں ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا (مٹی پاس نہ ہونے کی صورت میں صابن وغیرہ سے خوب صاف کرنا)۔ (بخاری)
۔4۔ غسل سے پہلے پورا وضو کرنا اگر نہانے کا پانی قدموں میں جمع ہورہا ہے تو پھر وضو میں پیروں کو نہ دھوئے بلکہ آخر میں یہاں سے ہٹ کر پاؤں دھوئے (پانی کی نکاسی کی صورت میں پہلے ہی دھولے)۔ ( بخاری)
۔5۔ پہلے سر پر پانی ڈالنا پھر دائیں اور پھر بائیں کندھے (پر اتنا پانی ڈالنا کہ قدموں تک پہنچ جائے) پھر بدن کو ہاتھوں سے ملنا، اس طرح تین بار کرنا۔ (ترمذی)
۔6۔ غسل کے بعدجسم کو کپڑے سے پونچھنا بھی ثابت ہے اور نہ پونچھنا بھی۔ لہٰذا جو بھی صورت اختیار کریں سنت ہونے کی نیت سے درست ہے۔ (ترمذی)
فائدہ: چار صورتوں میں غسل کرنا سنت ہے۔
۔1۔ نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا
۔2۔ عیدین کے لیے غسل کرنا ۔
۔3۔ حج یا عمرے کے احرام کے لیے غسل کرنا ۔
۔4۔ حج کرنے والے کو عرفہ کے دن بعد زوال آفتاب غسل کرنا۔ (مظاہر حق)
فی الجملہ غسل کے تین فرض، چھ سنتیں اور چار صورتوں میں غسل کرنا سنت ہوا۔ ان صورتوں کے علاوہ بھی غسل کریں تو اس نیت سے کہ صفائی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہے، ان شاء اللہ سنت کا ثواب ملے گا۔

کتاب کا نام : مسنون زندگی قدم بہ قدم