غزوہ احد میں محافظین رسول صلی اللہ علیہ وسلم

ابن سعد فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کی ہلچل اور اضطراب میں چودہ اصحاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ سات مہاجرین میں سے اور سات انصار میں سے جن کے نام حسب ذیل ہیں۔

 اسماء مہاجرین

۔۱- ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
۔۲- عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
۔۳- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
۔۴- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
۔۵- طلحہ رضی اللہ عنہ
۔۶- زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ
۔۷- ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ

اسماء انصار

۔1- ابو دجانہ رضی اللہ عنہ
۔2- حباب بن منذر رضی اللہ عنہ
۔3- عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ
۔4- حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ
۔5- سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ
۔6- سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ
۔7- اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ

مہاجرین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام اس لئے نہیں ذکر کیا گیا کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے شہید ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَلَم حضرت علی کو عطا فرما دیا تھا وہ مصروف جہاد و قتال تھے۔
یہ چودہ اصحاب آپ کے ساتھ تھے لیکن کبھی کبھی کسی ضرورت کی وجہ سے بعض حضرا ت کہیں چلے بھی جاتے تھے مگر جلد ہی واپس ہو جاتے تھے۔ اس لئے کبھی آپ کے ساتھ بارہ آدمی رہے۔
اور کبھی گیارہ اور کبھی سات اختلاف اوقات اور اختلاف حالات کی وجہ سے حاضرین بارگاہ رسالت کے عدد میں روایتیں مختلف ہیں ہر ایک راوی کا بیان اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے بجا اور درست ہے کسی وقت بارہ اور کسی وقت گیارہ اور کسی وقت سات آدمی آپ کے ساتھ رہے۔

جنت کے خریدار

صحیح مسلم میں حضرت انس سے مروی ہے کہ جب قریش کا آپ پر ہجوم ہوا تو یہ ارشاد فرمایا کون ہے کہ جو ان کو مجھ سے ہٹائے اور جنت میں میرا رفیق بنے۔ انصار میں سے سات آدمی اس وقت آپ کے پاس تھے۔ ساتوں انصاری باری باری لڑ کر شہید ہو گئے۔
ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا:۔ کون مرد ہے کہ جو ہمارے لئے اپنی جان فروخت کرے۔
یہ سنتے ہی زیاد بن سکن اور پانچ انصار کھڑے ہو گئے اور یکے بعد دیگرے ہر ایک نے جان نثاری اور جانبازی کے جوہر دکھلائے یہاں تک شہید ہوئے اور اپنی جان کو فروخت کر کے جنت مول لے لی۔
زیاد کو یہ شرف حاصل ہوا کہ جب زخم کھا کر گرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا ان کو میرے قریب لاؤ۔
لوگوں نے ان کو آپ کے قریب کر دیا۔ انہوں نے اپنا رخسار آپ کے قدم مبارک پر رکھ دیا اوراسی حالت میں جان اللہ کے حوالے کی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔

دندان مبارک کی شہادت

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عتبۃ بن ابی وقاص نے موقع پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک پتھر پھینکا جس سے نیچے کا دندان مبارک شہید اور نیچے کا لب زخمی ہوا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جس قدر اپنے بھائی عتبہ کے قتل کا حریص اور خواہشمند رہا اتنا کسی کے قتل کا کبھی حریص اور خواہشمند نہیں ہوا۔

رخسار مبارک کا زخمی ہونا

عبداللہ بن قمیہ نے جو قریش کا مشہور پہلوان تھا آپ پر اس زور سے حملہ کیا کہ رخسار مبارک زخمی ہوا اور خود کے دو حلقے رخسار مبارک میں گھس گئے اور عبداللہ بن شہاب زہری نے پتھر مار کر پیشانی مبارک کو زخمی کیا۔
چہرۂ انور پر جب خون بہنے لگا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد ماجد مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے تمام خون چوس کر چہرۂ انور کو صاف کر دیا آپ نے فرمایا۔
تجھ کو جہنم کی آگ ہرگز نہ لگے گی۔

ابن قمیہ کی ہلاکت

معجم طبرانی میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابن قمیہ نے آپ کو زخمی کرنے کے بعد یہ کہا:۔
۔‘‘لو اس کو اور میں ابن قمیہ ہوں’’۔
آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ‘‘اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل اور خوار ہلاک اور برباد کرے۔ چند روز نہ گزرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط کیا جس نے اپنے سینگوں سے ابن قمیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔

زندہ شہید

جسم مبارک پر چونکہ دو آہنی زرہوں کا بھی بوجھ تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر گئے جس کو ابو عامر فاسق نے مسلمانوں کے لئے بنایا تھا۔
حضرت علی نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور حضرت طلحہ نے کمر تھام کر سہارا دیا تب آپ کھڑے ہوئے۔ اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص زمین پر چلتے پھرتے زندہ شہید کو دیکھنا چاہے وہ طلحہ کو دیکھ لے۔

حضرت ابو عبید

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے باپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما سے راوی ہیں کہ چہرۂ انور میں زرہ کی جو دو کڑیاں چبھ گئی تھیں ابو عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچاجس میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے دو دانت شہید ہوئے۔

طلحہ رضی اللہ عنہ نے جنت واجب کر لی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہاڑ پر چڑھنے کا ارادہ فرمایا تو ضعف اور نقاہت اور دوزرہوں کے بوجھ کی وجہ سے مجبور ہوئے اس وقت حضرت طلحہ آپ کے نیچے بیٹھ گئے آپ ان پر اپنے پیر رکھ کر اوپر چڑھے اور حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو یہ کہتے سنا۔ ‘‘طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کر لی۔

احد کا دن تو سارا طلحہ رضی اللہ عنہ کا رہا

قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ کا وہ ہاتھ دیکھا جس سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کے دن بچایا تھا۔ وہ بالکل شل تھا (رواہ البخاری)
حاکم نے اکلیل میں روایت کیا ہے کہ اس روز حضرت طلحہ کے پینتیس یا انتالیس زخم آئے۔ ابو داؤد و طیالسی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب غزوۂ احد کا ذکر کرتے تو یہ فرماتے۔
یہ دن تو سارا طلحہ کے لئے رہا۔
حضرت جابر سے مروی ہے کہ دشمنوں کے وار روکتے روکتے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی انگلیاں کٹ گئیں تو بے اختیار زبان سے یہ نکلا۔ حسن آپ نے یہ ارشاد فرمایا:۔
اگر تو بجائے حسن کے بسم اللہ کہتا تو فرشتے تجھ کو اٹھا کر لے جاتے اور لوگ تجھ کو دیکھتے ہوئے ہوتے یہاں تک تجھ کو جوآ سمان میں لے کر گھس جاتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ ہم نے احد کے دن طلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم دیکھے۔

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے علاتی باپ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کو سپر سے ڈھانکے ہوئے تھے ۔ بڑے تیرانداز تھے اس روز دو یا تین کمانیں توڑ ڈالیں جو شخص ترکش لئے ہوئے ادھر سے گزرتا نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اس سے یہ فرماتے کہ یہ ترکش ابو طلحہ کے لئے ڈال جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نظر اٹھا کر لوگوں کو دیکھنا چاہتے تو ابو طلحہ یہ عرض کرتے۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نظر نہ اٹھائیں نصیب دشمنان کوئی تیر نہ آ لگے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے لئے سپر ہے۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے تیرے انداز تھے۔ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تمام تیر نکال کر ان کے سامنے ڈال دئیے اورفرمایا۔ تیر چلا تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے سوائے سعد بن ابی وقاص کے کسی اور کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فداک ابی و امی کہتے نہیں سنا۔
حاکم راوی ہیں کہ احد کے دن حضرت سعد نے ایک ہزار تیر چلائے ۔

حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ

ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپر بن کر آپکے سامنے کھڑے ہو گئے اور پشت دشمنوں کی جانب کر لی۔ تیر پر تیر چلے آ رہے ہیں اور ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کی پشت ان کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ مگر اس اندیشہ سے کہ آپ کو کوئی تیر نہ لگ جائے حس و حرکت نہیں کرتے تھے۔

صفوان’ سہیل اور حارث کے لئے بددعا

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرہ انور سے خون پونچھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کیا اور وہ ان کو ان کے پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت سالم سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے حق میں بددعا فرمائی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ
اس امر میں آپ کو کوئی اختیار نہیں یہاں تک کہ خدا مہربانی فرمائے یا ان کو توبہ کی توفیق دے یا ان کو عذاب دے کیونکہ وہ بڑے ظالم ہیں۔
حافظ عسقلانی فرماتے ہیں کہ یہ تینوں فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے غالباً اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے ان کے حق میں بددعا کرنے سے منع کیا اور یہ آیت شریفہ نازل فرمائی۔

پیکر رحمت

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نظروں کے سامنے ہیں۔ پیشانی مبارک سے خون پونچھتے جاتے ہیں اور یہ فرماتے جاتے ہیں۔
رَبِ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ
اے پروردگار میری قوم کی مغفرت فرما وہ جانتے نہیں ہیں۔
بمقتضائے شفقت و رافت فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ فرمایا یعنی جانتے نہیں بے خبر ہیں اور یہ نہیں فرمایا فَاِنَّھُمْ یَجْھَلُوْنَ یعنی یہ جاہل ہیں۔
آیات بینات کا مشاہدہ کر لینے کے بعد اگرچہ جہل اور لاعلمی عذر نہیں ہو سکتی۔
لیکن رحمت عالَم اور رافت مجسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت اور غایت رحمت سے بارگاہ ارحم الراحمین اور اجودالاجودین اور اکرم الاکرمین میں بصورت لاعلمی ان کی طرف سے معذرت کی شاید رحمت خداوندی ان کو کفر و شرک سے نکال کر ایمان و اسلام کے دار الامان اور دار السلام میں لا داخل کرے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ

قتادۃ بن النعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں احد کے دن آپ کے چہرہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنا چہرہ دشمنوں کے مقابل کر دیا۔
تاکہ دشمنوں کے تیر میرے چہرے پر پڑیں اور آپ کا چہرہ انور محفوظ رہے۔ دشمنوں کا آخری تیر میری آنکھ پر ایسا لگا کہ آنکھ کا ڈھیلہ باہر نکل پڑا جس کو میں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور میرے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ جس طرح قتادہ نے تیرے نبی کے چہرہ کی حفاظت فرمائی اسی طرح تو اس کے چہرہ کو محفوظ رکھ اور اس آنکھ کو دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز نظر بنا اور آنکھ اسی جگہ رکھ دی۔ اسی وقت آنکھ بالکل صحیح اور سالم بلکہ پہلے سے بہتر اور تیز ہو گئی۔
ایک روایت میں ہے کہ قتادہ اپنی آنکھ کی پتلی کو ہاتھ میں لئے ہوئے حضور پرنور کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا اگر تو صبر کرے تو تیرے لئے جنت ہے اور اگر چاہے تو اسی جگہ رکھ کر تیرے لئے دعا کردوں قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میری ایک بیوی ہے جس سے مجھ کو بہت محبت ہے مجھ کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر بے آنکھ رہ گیا تو کہیں وہ میری بیوی مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے ۔ آپ نے دست مبارک سے آنکھ اسکی جگہ پر رکھ دی اور یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ اسکو حسن و جمال عطا فرما۔

حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا حوصلہ افزائی کرنا

جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ نصیب دشمناں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہو گئے تو بعض مسلمان ہمت ہار کر بیٹھ گئے اور یہ بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو شہید ہو گئے اب لڑ کر کیا کریں۔
تو انس بن مالک کے چچا حضرت انس بن نضر نے یہ کہا اے لوگو اگر محمدؐ قتل ہو گئے تو محمدؐ کا رب تو قتل نہیں ہو گیا۔ جس چیز پر آپ نے جہاد و قتال کیا اسی پر تم بھی جہاد و قتال کرو اور اسی پر مر جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے۔
یہ کہہ کر دشمنوں کی فوج میں گھس گئے اور مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔

میں تو جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں

صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر کو غزوۂ بدر میں شریک نہ ہونے کا بہت رنج تھا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے۔ یا رسول اللہ افسوس کہ میں مشرکین کیساتھ اسلام کے پہلے ہی جہاد و قتال میں شریک نہ ہوا۔
اگر خدا تعالیٰ نے مجھ کو آئندہ کسی جہاد میں شریک ہونے کی توفیق دی تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں اسکی راہ میں کیسی جدوجہد اور کیسی جانبازی اور سرفروشی دکھاتا ہوں۔
جب معرکہ احد میں کچھ لوگ شکست کھا کر بھاگے تو انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ میں تیری بارگاہ میں اس فعل سے معافی چاہتا ہوں جو ان مسلمانوں نے کیا کہ جو میدان سے ذرا پیچھے ہٹے اور اس سے بری اور بیزار ہوں کہ جو مشرکین نے کیا اور تلوار لے کر آگے بڑھے سامنے سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آ گئے ان کو دیکھ کر انس بن نضر نے کہا:
اے سعد کہاں جا رہے ہو تحقیق میں تو احد کے نیچے جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ بعض مرتبہ اپنے خاص بندوں کو روحانی طورپر نہیں بلکہ حسی طورپر دنیا ہی میں جنت کی خوشبو سنگھا دیتے ہیں جس طرح وہ حضرات ناک سے گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سونگھتے ہیں اسی طرح وہ دنیا میں کبھی کبھی اللہ کے فضل سے جنت کی خوشبو سونگھتے ہیں جس کی مہک پانچ سو میل تک پہنچتی ہے عجب نہیں کہ حضرت انس بن نضر نے حسی طورپر جنت کی خوشبو محسوس فرمائی ہو۔

حضرت انس بن نضر کی شہادت

الغرض حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ واھالریح الجنہ اجدہ دون احد (واہ واہ جنت کی خوشبو احد کے پاس پار ہا ہوں) یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے اور دشمنوں کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ شہید ہوئے جسم پر تلوار اور تیر کے اسی سے زیادہ زخم پائے گئے اور یہ آیت انکے بارہ میں نازل ہوئی۔
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہ
مسلمانوں میں سے بعضے ایسے مرد ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد باندھا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔

حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا حضور کی جگہ تیر کھانا

مسلمانوں کی پریشانی اور بے چینی کا زیادہ سبب ذات بابرکات علیہ الف الف صلوات والف الف تحیات کا نظروں سے اوجھل ہو جانا تھا۔ سب سے پہلے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا۔ آپ خود پہنے ہوئے تھے۔ چہرۂ انور ڈھکا ہوا تھا۔
کعب کہتے ہیں میں نے خود میں سے آپ کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر آپ کو پہچانا۔ اسی وقت میں نے بآواز بلند پکار کر کہا اے مسلمانو! بشارت ہو تمہیں ۔
یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دست مبارک سے اشارہ فرمایا خاموش رہو اگرچہ آپ نے دوبارہ کہنے سے منع فرمایا۔ لیکن دل اور سر کے کان سب کے اسی طرف لگے ہوئے تھے اس لئے کعب رضی اللہ عنہ کی ایک ہی آواز سنتے ہی پروانہ وار آپ کے گرد آ کر جمع ہو گئے۔
کعب فرماتے ہیں کہ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زرہ مجھ کو پہنا دی اور میری زرہ آپ نے پہن لی۔ دشمنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال سے مجھ پر تیر برسانے شروع کئے۔ بیس سے زیادہ زخم آئے۔

ابی بن خلف کی ہلاکت

جب کچھ مسلمان آپ کے پاس جمع ہو گئے تو پہاڑ کی گھاٹی کی طرف چلے ۔ ابوبکر اور عمر اور علی اور طلحہ اور حارث بن صمہ وغیرہ آپ کے ہمراہ تھے۔
جب پہاڑ پر چڑھنے کا ارادہ فرمایا تو ضعف اور نقاہت اور دو زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے چڑھ نہ سکے اس لئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نیچے بیٹھ گئے ان پر پیر رکھ کر آپ اوپر چڑھے۔
اتنے میں ابی بن خلف گھوڑا دوڑاتا ہوا آ پہنچا جس کو دانہ کھلا کر اس امید پر موٹا کیا تھا کہ اس پر سوار ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کروں گا۔
آپ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اسی وقت فرمادیا تھا کہ ان شاء اللہ میں ہی اس کو قتل کروں گا۔جب وہ آپ کی طرف بڑھا تو صحابہ نے اجازت چاہی کہ ہم اس کا کام تمام کریں۔
آپ نے فرمایا قریب آنے دو جب قریب آ گیا تو حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے نیزہ لے کر اس کی گردن میں ایک کوچہ دیا جس سے وہ بلبلا اٹھا اور چلاتا ہوا واپس ہوا کہ خدا کی قسم مجھ کو محمدؐ نے مار ڈالا۔
لوگوں نے کہا یہ تو ایک معمولی گھرونٹ ہے۔ کوئی کاری زخم نہیں جس سے تو اس قدر چلا رہا ہے۔ ابی نے کہا تم کو معلوم نہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ ہی میں کہا تھا کہ میں ہی تجھ کو قتل کروں گا۔
اس گھرونٹ کی تکلیف میرا ہی دل جانتا ہے خدا کی قسم اگر یہ گھرونٹ حجاز کے تمام باشندوں پر تقسیم کر دی جائے تو سب کی ہلاکت کے لئے کافی ہے۔ اسی طرح بلبلاتا رہا مقام سرف میں پہنچ کرمر گیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپؐ کے زخم دھوئے

جب آپ گھاٹی پر پہنچے تو لڑائی ختم ہو چکی تھی وہاں جا کر بیٹھ گئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ پانی لائے اور چہرۂ انور سے خون دھویا اور کچھ پانی سر پر ڈالا۔ بعد ازاں آپ نے وضو کیا اور بیٹھ کر ظہر کی نماز پڑھائی۔ صحابہ نے بھی بیٹھ کر ہی اقتداء کی۔

شہداء کے ساتھ مشرکین کا سلوک

اور مشرکین نے مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کرنا شروع کیا یعنی ناک اورکان کاٹے ’ پیٹ چاک اور اعضاء تناسل قطع کئے۔ عورتیں بھی مردوں کے ساتھ اس کام میں شریک رہیں۔
ہندہ نے جس کا باپ عتبہ جنگ بدر میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا پیٹ اور سینہ چاک کر کے جگر نکالا اور چبایا لیکن حلق سے نہ اتر سکااس لئے اس کو اگل دیا اور اس خوشی میں وحشی کو اپنا زیور اتار کر دیا۔
اور جن مسلمانوں کے ناک اور کان کاٹے گئے تھے ان کا ہار بنا کر گلے میں ڈالا۔

کتاب کا نام: جدید سیرت النبی اعلیٰ