عفوودرگزر کی سنتیں

مسنون زندگی قدم بہ قدم

عفوودرگزر کی سنتیں

کسی شخص کو دوسرے نے تکلیف پہنچائی ہے تو اسے شریعت کی حدود میں رہ کر بدلہ لینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اگر وہ بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا بہت اجر و ثواب ہے۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے (اور انہیں چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم یہ بات پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو معاف کریں؟) یعنی کون شخص دُنیا میں ایسا ہے جس سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو اور ہر شخص یہ بھی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی غلطی کو معاف فرمادیں۔
لہٰذا اگر کسی دوسرے سے کوئی غلطی ہو جائے تو یہ سوچنا چاہیے کہ جس طرح میں اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواہش مند ہوں، اسی طرح مجھے بھی دوسروں کو معاف کردینا چاہیے۔
آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو معاف کرنے کی روش اختیار کرے ان شاء اللہ اُمید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی غلطیوں کی مغفرت فرمائیں گے۔ یہ بات متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔

معاف کرنے پر درجات کا بلند ہونا

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس کسی شخص کے جسم کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے اور وہ اس کو معاف کردے تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند فرما دیتے ہیں اور اس عمل کی وجہ سے اس کا گناہ معاف فرماتے ہیں”۔
جامع ترمذی میں ہے کہ ایک شخص کا دانت کسی نے توڑ دیا تھا ، وہ شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بدلہ لینے کی غرض سے پہنچا۔ وہاں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اوپر والی حدیث سنادی تو اس نے بدلہ لینے کا ارادہ ترک کرکے اپنے مدمقابل کو معاف کردیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو معاف کرنے کے بجائے اس سے بدلہ لے۔ یعنی اس کو بھی ویسی ہی تکلیف پہنچا دے تو اس سے اس کا کیا فائدہ ہوا؟۔
یا اگر کسی نے ایسی تکلیف پہنچائی ہے جس کا بدلہ لینا ممکن نہیں ہے تو اس کو معاف نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کو آخرت میں عذاب ہوگا۔ یہاں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر اس کو آخرت میں عذاب ہوا تو اس سے مجھے کیا فائدہ ہے؟۔
اس کے برخلاف اگر اس کو معاف کردیا تو اس سے میرے گناہ معاف ہوں گے، عذاب جہنم سے نجات ملے گی اور اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائیں گے۔ لہٰذا عقل کی بات یہی ہے کہ معاف کرکے یہ فضیلت حاصل کی جائے۔

 جب کبھی کسی شخص کے خلاف انتقام کا جذبہ پیدا ہو، یہ سوچ لینا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ جب کافر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے اور اس سے آپ کا چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:۔
۔”اَللّٰھم اغْفِر لِقوْمِی، فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن”۔
۔”اے اللہ! میری قوم کو معاف کردیجئے، ان لوگوں کو حقیقت کا پتہ نہیں ہے” (بحوالہ بخاری شریف)

معاف کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے

اللہ جل شانہ کو پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے جو شخص کسی دوسرے کی غلطی کو معاف کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر اپنا عفووکرم فرماتے ہیں۔ اس ضمن میں کئی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔

ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ایک دیہاتی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کا کونا زور سے کھینچ کر بولا “اے محمد! یہ مال نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا ہے مجھے ایک اونٹ دے”۔ یہ طرز تخاطب ہر لحاظ سے بدتمیزی اور شان رسالت میں گستاخی تھا، اس کی بات سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو بہت غصہ آیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دیہاتی سے کمال خندہ پیشانی سے پیش آئے اور اس کو مفت اونٹ دینے کے علاوہ اس اونٹ کو اشیائے خوردونوش سے لدوا دیا۔

اب ہمارا فرض ہے کہ دیکھیں کہ ہمارا طرزِ عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ کے مطابق ہے یا نہیں؟ ہم ذرا ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور اگر دوسرا آدمی غلطی پر ہو تو اسے معاف کرنے کے روادار نظر نہیں آتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے آئینہ ہے جس میں ہم اپنا آپ بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ خوشنما ہے یا داغدار۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا وہ لوگ کہاں ہیں جو لوگوں کی خطائیں معاف کردیا کرتے تھے، وہ اپنے پروردگار کے حضور میں آئیں اور اپنا انعام لے جائیں کیونکہ ہر مسلمان جس کی یہ عادت تھی، بہشت میں داخل ہونے کا حق دار ہے۔ (عن ابن عباس رضی اللہ عنہما)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے درجے بلند ہوں اس کو چاہیے کہ وہ اس آدمی سے درگزر کرے جس نے اس پر ظلم کیا ہو اور اس کو دے جس نے اس کو نہ دیا ہو اور اس کے ساتھ رشتہ جوڑے جس نے اس سے رشتہ توڑا ہو اور اس کے ساتھ تحمل کرے جس نے اس کو برا کہا ہو۔ (ابن عباس، عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہما)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ! میں اپنے خادم (غلام یا نوکر) کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر روز ستر دفعہ۔ (جامع ترمذی، معارف الحدیث)

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 361 تا 359

Written by Huzaifa Ishaq

15 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments