طلحہ بن عبید کا قبول اسلام

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

طلحہ بن عبید کا قبول اسلام
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما کا سختیاں برداشت کرنا

حضرت مسعود بن حراش رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر رہے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ ایک نوجوان آدمی کے ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور لوگوں کا ایک بڑا مجمع اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔
میں نے پوچھا اس نوجوان کو کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں جو بے دین ہو گئے ہیں اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے پیچھے ایک عورت تھی جو بڑے غصہ سے بول رہی تھی اور ان کو برا بھلا کہہ رہی تھی میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے؟
لوگوں نے بتایا یہ ان کی والدہ صعبہ بنت الحضرمی ہے۔
حضرت ابراہیمؒ بن محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا کہ میں بصرہ کے بازار اور میلہ میں موجود تھا تو وہاں ایک پادری اپنے گرجا گھر کے بالاخانے میں رہتا تھا۔
اس نے کہا کہ اس بازار اور میلہ والوں سے پوچھو کہ کیا ان میں کوئی حرم کا رہنے والا ہے۔ میں نے کہا ہاں میں ہوں۔
اس نے پوچھا کہ کیا احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہو گیا ہے؟۔
میں نے کہا احمد صلی اللہ علیہ وسلم کون؟۔
اس نے کہا عبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ان کا ظہور ہو گا اور وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حرم (مکہ) میں ان کا ظہور ہو گا اور وہ ہجرت کر کے ایسی جگہ جائیں گے جہاں کھجوروں کے باغات ہوں گے۔ پتھریلی اور شوریلی زمین ہو گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ تو ان کا اتباع کر لیں اور تم ان سے پیچھے رہ جاؤ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی بات میرے دل کو لگی اور میں وہاں سے تیزی سے چلا اور مکہ پہنچ گیا اور میں نے پوچھا کیا کوئی نئی بات پیش آئی ہے انہوں نے کہا ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ جو امین کے لقب سے مشہور ہیں۔
انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما نے ان کا اتباع کیا ہے۔ چنانچہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور میں نے کہا کیا آپ نے اس آدمی کا اتباع کر لیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں تم بھی ان کی خدمت میں جاؤ اور ان کا اتباع کر لو کیونکہ وہ حق کی دعوت دیتے ہیں۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پادری کی بات بتائی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ جہاں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پادری کی بات بتائی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت خوشی ہوئی جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ دونوں مسلمان ہو گئے تو ان دونوں کو نوفل بن خویلد بن العدویہ نے پکڑ کر ایک رسی میں باندھ دیا اور بنو تیم نے ان دونوں کو نہ بچایا۔
نوفل بن خویلد کو مشیر قریش کہا جاتا تھا۔ (ایک رسی میں باندھے جانے کی وجہ سے) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو قرینین (یعنی دوساتھی) کہا جاتا ہے۔ امام بیہقی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی اے اللہ! ہمیں ابن العدویہ کے شر سے بچا۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 228 – 229

Written by Huzaifa Ishaq

23 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments