صحابہ کے زمانے میں بچوں کا جذبہ جہاد

حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے جنگ احد کے دن اپنے بیٹے کو ایک تلوار دی جسے وہ اٹھا نہیں سکتا تھا تو اس عورت نے چمڑے کے تسمے سے وہ تلوار اس کے بازو کے ساتھ مضبوط باندھ دی۔
پھر اسے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا یہ بیٹا آپ کی طرف سے لڑائی کرے گا۔ پھر آپ نے اس بچہ سے کہا اے میرے بیٹے! یہاں حملہ کرو۔
اے میرے بیٹے! یہاں حملہ کرو۔ بالآخر وہ زخمی ہو کر گر گیا۔ پھر اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے فرمایا اے میرے بیٹے! شاید تم گھبرا گئے۔
اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نہیں۔

دوسرا واقعہ:۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے سے پہلے دیکھا کہ وہ چھپتے پھر رہے تھے۔
میں نے کہا اے میرے بھائی تمہیں کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ مجھے ڈر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں گے اور مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس فرما دیں گے اور میں اللہ کے رستہ میں نکلنا چاہتا ہوں۔
شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرما دے۔ چنانچہ جب ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس فرما دیا جس پر وہ رونے لگے۔
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ چھوٹے تھے اس لئے میں نے ان کی تلوار کے تسمے میں گرہیں باندھی تھیں اور وہ سولہ سال کی عمر میں شہید ہو گئے۔ (اخرجہ ابن سعد)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 444