شاہ حکیم اختر صاحب کا تعارف

اللہ تعالیٰ کی محبت میں تڑپا دینے والی باتیں

شاہ حکیم اختر صاحب کا تعارف
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے قلم سے :۔


حضرت حکیم صاحب قدس سرہ کی ذات گرامی اس وقت سالکانہ طریقت کے لئے ایک عظیم چشمہ فیض تھی ۔ جس کے آب حیات سے بے شمار انسانوں کو نئی زندگی ملی اور نجانے کتنے خاندانوں میں وہ حسین انقلاب برپا ہوا جس سے ضمیر کو سکون، نظر کو آسودگی اور دل کو تعلق مع اللہ اور یقین ومعرفت کا قرار حاصل ہوتا ہے ۔
مجھے سب سے پہلے اُنکی زیارت و ملاقات کا شرف 1960 عیسوی میں اُس وقت حاصل ہوا جب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ پاکستان تشریف لائے ۔ ہمارے والد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ جب بھی اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال سکتے تو اُنکی خدمت میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ اور اپنے ساتھ ہم بھائیوں کو بھی لے جایا کرتے تھے ۔
اُس وقت حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری پر ایک استغراق کا سا عالم طاری رہتا تھا اور اگرچہ اُنکی مجلس میں شرکت کے لئے علماء اور دوسرے مسلمان دور دور سے آتے تھے ۔
لیکن وہ مجلس سے خود خطاب نہیں فرماتے تھے، اُس وقت عموماً حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری کی گزشتہ مجلسوں کے بیانات اور ملفوظات ہی مجلس میں سنائے جاتے تے ۔ سنانے والے ایک صاحب نہایت وجیہ شکیل، فصیح و بلیغ نوجوان تھے ۔ جنہوں نے حضرت پھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیانات نہایت مؤثر اور عام فہم انداز میں اپنے پاس ضبط کئے ہوئے تھے ۔ اور مجلس میں انہی کو واضح اور خوشگوار لہجے میں سناتے تھے ۔
مجلس کے بعد پتہ چلا کہ یہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جو حضرت پھولپوری کے مصاحب خاص ہیں ۔ اس طرح پہلی مرتبہ ان سے ملاقات اور تعارف کا شرف حاصل ہوا ۔
بعد میں جب کبھی حاضری ہوتی وہ ہمیشہ اپنے متبسم چہرے کے ساتھ ملتے اور اُنکے ساتھ ساتھ کبھی کبھی بے تکلف مجلسیں بھی ہوتی تھیں ۔ وہ بزرگوں کی باتیں سناتے اور چونکہ شعری ذوق اُنہیں حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملا تھا ۔ اس لئے ہمارے درمیان شعر و سخن کا تبادلہ بھی ہوتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت پھولپوری کے بیانات کو اس قابلیت کے ساتھ قلمبند کیا تھا کہ اسمیں حضرت کے علوم و معارف اپنی بھرپور تاثیر کےساتھ جمع ہوگئے تھے ۔ بعد میں یہ بیانات “معیت الٰہیہ” اور “معرفت الٰہیہ” کے نام سے شائع بھی ہوئیں ۔ اور میرے بڑے بھائی جناب الحاج محمد زکی کیفی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جو خود حضرت سے بیعت تھے اور بزرگوں سے صحبت یافتہ تھے، فرمایا کرتے تھے “اِن میں آگ بھری ہوئی ہے”۔
حضرت حکیم صاحب نے ابتدائی تعلیم پرتاب گڑھ سے حاصل کی تھی اور اسی زمانےسے وہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت و صحبت سے سالہا سال مستفید ہوتے رہے ، حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے سلسلہ کے بزرگ تھے ۔ اور عشق و محبت کے دریا میں غرق تھے ۔
حضرت حکیم صاحب نے اُن سے خوب خوب استفادہ فرمایا اور اسکے بعد حضرت مولانا عبدالغنی پھولپوری قدس سرہ سے بیعت کا تعلق قائم فرمایا اور عرصہ دراز تک اُنکی خدمت و صحبت میں رہے اور مجاھدہ کی زندگی گزاری ، اس سے پہلے انہوں نے اپنے والد ماجد رحمہ اللہ تعالیٰ کی خواہش کے مطابق عصری اسکولوں میں پڑھا تھا ۔ بعد میں طیبہ کالج اسلام آباد سے حکمت کی سند حاصل تھی ۔ لیکن انکی اصل خواہش علوم دینیہ پڑھنے کی تھی ۔
شاہ عبدالغنی پھولپوری کے مدرسہ “بیت العلوم” میں چار سال کے اندر درس نظامی مکمل کیا اور لوگوں کے اصرار کے باوجود دارالعلوم دیوبند نہیں گئے ۔ تاکہ حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوری قدس سرہ کی خدمت میں علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علوم باطنی کی بھی تکمیل ہو ۔
پھر انہی کے حکم کے مطابق ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت ہوئے ، جنہوں نے انکو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا ۔
آپ نے دوسرے شیخ حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی کی حیات ہی میں اُنکے حکم کے مطابق “خانقاہ امدادیہ اشرفیہ” پہلے ناظم آباد پھر گلشن اقبال میں قائم کیا ۔ جس میں سالکانِ طریقت کا اتنا زبردست رجوع ہوا کہ دنیا کے تقریباً ہر خطے سے لوگ اپنی اصلاح کے لئے آتے اور دل کی دنیا بدل کرجاتے ۔ شروع میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب کا درس مثنوی خاص طور پر نہایت مقبول اور مؤثر ہوا جو بعد میں “معارف مثنوی” کے نام سے شائع ہوا ۔ اس کے بعد انہوں نے خود مثنوی تصنیف فرمائی ۔ اور انکی مجالس، مواعظ و ملفوظات بفضلہ تعالیٰ بڑی تعداد میں قلمبند ہوکر شائع ہوئے جنہوں نے طالبان سلوک کی پیاس بجھائی ۔ اسی طرح انکی تصانیف، مواعظ اور مجالس جو چھوٹی بڑی کتابی شکل میں شائع ہوئے ، انکی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ اور ان میں بہت سی کتابوں کے تراجم عربی، فارسی، انگریزی اور چینی اورروسی زبان کے علاوہ دنیا کی 23 مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں ۔
اس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں اپنے مشائخ کے فیض کو عالمگیر بنانے کی وہ توفیق عطا فرمائی جسے عصر حاضر میں منفرد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔
مجھے بھی گاہے گاہے اُنکی خانقاہ میں حاضری کا موقع ملتا رہتا تھا ۔ ہمیشہ اُنکی خدمت میں حاضری کا سرور ملتا تھا ۔ لیکن 2000 عیسوی سے ایک طرف میرے اسفار بہت بڑھ گئے ۔ اُدھر حضرت بھی فالج کے حملے سے ہوگئے ۔ جن کی بنا پر انکی نقل و حرکت متاثر ہوئی ۔ اس لئے ملاقات اور زیارت کے مواقع کم ہوگئے، اسکے باوجود کبھی کبھی بندہ اُنکی خانقاہ میں حاضر ہوتا تو وہ بستر پر ہوتے مگر چہرے پر وہی اطمینان وسکون، وہی پرتبسم انداز اور وہی شفقت و محبت کا معاملہ ۔
تقریباً تیرہ سال انہوں نے علالت کی حالت میں گزارے، لیکن رضا بالقضاء کی تصویر بن کر۔ اس حالت میں بھی جب زبان ساتھ دینے لگی تو مجلسوں اور افادات کا سلسلہ پہلے کی طرح، بلکہ بعض اوقات پہلے سے زیادہ جاری ہوگیا ۔
انکی مجالس اور جذب دروں کا یہ اثر تھا کہ جو شخص اُنکی صحبت میں کچھ عرصہ گزار لیتا ۔ اُس پر شریعت و طریقت کا مخصوص رنگ چڑھ جاتا تھا ۔ اُنہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کئے اور ہر دورے میں وہاں کے باشندوں کی ایک بڑی جماعت کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ۔
بالآخر حکیم صاحب قدس سرہ کا وقت آگیا جسے کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ 23 رجب 1434 ہجری میں بمطابق 2 جون 2013 عیسوی اتوار کے دن عصر کے بعد اُنکی حالت نازک ہوگئی ۔ جب اتوار کا سورج غروب ہوکر پیر کی رات شروع ہوئی تو اُنکی روح اپنے محبوب حقیقی کے حضور پہنچ گئی ۔ میں اُسوقت مدینہ طیبہ میں تھا ۔ مغرب کی نماز کے کچھ ہی دیر بعد پاکستان اور سعودی عرب کے مختلف حضرات کے پیغامات ملے ۔ جس سے اس جان گداز سانحے کی اطلاع ملی ۔ جنازے میں شرکت ممکن نہیں تھی ۔ وہیں مسجد نبوی میں حسب استطاعت ایصال ثواب اور دعا کی توفیق ہوئی ۔
چند روز بعد پاکستان واپسی ہوئی تو انکی خانقاہ میں اُنکے لائق فائق فرزند جناب مولانا محمد مظہر صاحب اور دیگر خلفائے کرام کی خدمت میں حاضری دی تو مولانا مظہر صاحب نے بتلایا کہ حضرت حکیم صاحب نے یہ تمنا ظاہر فرمائی تھی کہ اُنکا انتقال پیر کے دن ہو کیونکہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی پیر کے روز ہوئی تھی ۔ اس کے بعد علالت کے آخری دنوں میں جب ذرا ہوش آیا تو پوچھا کہ “آج کونسا دن ہے؟” جواب دیا گیا کہ بدھ ہے ۔ تو خاموش ہوگئے پھر دو دن بعد پوچھا تو بتایا گیا کہ جمعہ ہے ۔ پھر خاموش ہوگئے ۔
بظاہر وہ پیر کے دن کے انتظار میں تھے ۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُنکی یہ تمنا قبول فرمائی کہ سکرات کا وقت اتوار کا دن گزرنے کے بعد پیر کی شب میں طاری ہوا اور اسی دن اُنہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ ۔

از کتاب : اللہ تعالیٰ کی محبت میں تڑپا دینے والی باتیں ۔

Written by Huzaifa Ishaq

29 November, 2022

You May Also Like…

0 Comments