حضرت عمر کے مشورے پر عمل کرنا

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت عمر کے مشورے پر عمل کرنا

حضرت قاسمؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس میں وہ اہل الرائے اور اہل فقہ سے مشورہ کرنا چاہتے تو مہاجرین و انصار میں سے کچھ حضرات کو بلا لیتے اور حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی بلاتے۔
یہ سب حضرات حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں فتویٰ دیا کرتے تھے اور لوگ بھی ان ہی حضرات سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر کے زمانے میں یہ ترتیب رہی۔ ان کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے تو وہ بھی ان ہی حضرات کو (مشورہ کے لئے) بلایا کرتے اور ان کے زمانہ میں حضرت عثمان ، حضرت ابی اور حضرت زید رضی اللہ عنہ فتویٰ کا کام کیا کرتے۔

حضرت عبیدہ کہتے ہیں کہ عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا اے خلیفہ رسول اللہ! ہمارے علاقہ میں ایک شوریلی زمین ہے جس میں نہ گھاس اگتی ہے اور نہ اس سے کوئی اور فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
اگر آپ مناسب سمجھیں تو وہ ہمیں بطور جاگیر دے دیں تاکہ ہم اس میں ہل چلائیں اور اسے کاشت کریں شاید وہ آباد ہو جائے۔ چنانچہ آپ نے وہ زمین ان کو بطور جاگیر دینے کا ارادہ کر لیا اور ان کے لئے ایک تحریر لکھی اور یہ طے کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس فیصلہ پر گواہ بنیں۔
اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ دونوں تحریر لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر گواہ بنانے کے لئے ان کے پاس گئے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس تحریر کا مضمون سنا تو ان دونوں کے ہاتھ سے وہ تحریر لی اور اس پر تھوک کر اسے مٹا دیا۔ اس پر ان دونوں کو غصہ آ گیا اور دونوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم دونوں کی تالیف قلب فرمایا کرتے تھے (اور تالیف قلب کی وجہ سے تم دونوں کو زمین دی تھی) جبکہ اُس وقت اسلام کمزور اور اسلام والے تھوڑے تھے اور آج اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے (اس لئے اب تمہاری تالیف قلب کی کوئی ضرورت نہیں ہے) تم دونوں چلے جاؤ اور میرے خلاف جتنا زور لگا سکتے ہو لگا لو اور اگر تم لوگ اللہ سے حفاظت مانگو تو اللہ تمہاری حفاظت نہ کرے۔
یہ دونوں غصہ میں بھرے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا اللہ کی قسم! ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ خلیفہ ہیں یا عمر؟
حضرت ابوبکر نے فرمایا اگر وہ چاہتے تو خلیفہ بن سکتے تھے۔ اتنے میں حضرت عمر بھی غصہ میں بھرے ہوئے آئے اور حضرت ابوبکر کے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگے آپ مجھے بتائیں کہ آپ نے یہ زمین جو ان آدمیوں کو بطور جاگیر دی ہے یہ آپ کی ملک ہے یا تمام مسلمانوں کی ہے۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا نہیں، تمام مسلمانوں کی ہے۔
حضرت عمر نے کہا تو پھر آپ نے سارے مسلمانوں کو چھوڑ کر صرف ان دو کو کیوں دے دی؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ میرے پاس جو مسلمان تھے میں نے ان سے مشورہ کیا تھا۔ ان سب نے مجھے ایسا کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ نے اپنے پاس والوں سے تو مشورہ کیا لیکن کیا آپ نے تمام مسلمانوں سے مشورہ کر کے ان کی رضا مندی حاصل کی ہے؟ (چونکہ یہ بات ظاہر تھی کہ ہر امر میں سارے مسلمانوں سے مشورہ نہیں لیا جا سکتا۔ اس وجہ سے حضرت ابوبکر نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ) حضرت ابوبکر نے فرمایا میں نے تو تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ تم اس امر خلافت (کو سنبھالنے) کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتے ہو لیکن تم مجھ پر غالب آ گئے (اور تم نے مجھے زبردستی خلیفہ بنا دیا)۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو یہ لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور کے بارے میں مشورہ کیا کرتے تھے لہٰذا تم بھی مشورہ کرنے کو اپنے لئے لازمی سمجھو۔ (اخرجہ الطبرانی)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 468 – 469

Written by Huzaifa Ishaq

27 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments