حضرت عمر کی وفات کا حال

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

امر خلافت کی صلاحیت رکھنے والے حضرات کے مشورہ پر امر خلافت کو موقوف کر دینا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابو لؤلؤہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نیزے کے دو وار کیئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خیال ہوا کہ شاید ان سے لوگوں کے حقوق میں کوئی ایسی کوتاہی ہوئی ہے جسے وہ نہیں جانتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان سے بڑی محبت تھی۔ وہ ان کو اپنے قریب رکھتے تھے اور ان کی بات سنا کرتے تھے اور ان سے فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ پتہ کرو کہ کیا میرا یہ قتل لوگوں کے مشورے سے ہوا ہے؟ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ باہر چلے گئے۔
وہ مسلمانوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے وہ روتے ہوئے نظر آتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں واپس آ کر عرض کیا۔ اے امیر المؤمنین! میں جس جماعت کے پاس سے گزرا میں نے ان کو روتے ہوئے پایا۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے آج ان کا پہلا بچہ گم ہوگیا ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا مجھے کس نے قتل کیا ہے؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مجوسی غلام ابو لؤلؤہ نے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ ان کا قاتل مسلمان نہیں بلکہ مجوسی ہے) تو میں نے ان کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے اور وہ کہنے لگے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میرا قاتل ایسے آدمی کو نہیں بنایا جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ کہہ کر مجھ سے حجت بازی کر سکے۔
غور سے سنو!۔
میں نے تم کو کسی عجمی کافر غلام کو یہاں لانے سے منع کیا تھا لیکن تم نے میری بات نہ مانی۔
پھر فرمایا میرے بھائیوں کو بلا لاؤ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا حضرت عثمان، حضر ت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ۔
ان لوگوں کے پاس آدمی بھیجا پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا۔ جب وہ حضرات آ گئے تو میں نے کہا یہ سب آ گئے ہیں تو فرمایا اچھا میں نے مسلمانوں کے معاملہ میں غور کیا ہے ۔
میں نے آپ چھ حضرات کو مسلمانوں کا سردار اور قائد پایا ہے اور یہ امر خلافت صرف تم میں ہی ہو گا جب تک تم سیدھے رہو گے اس وقت تک لوگوں کی بات بھی ٹھیک رہے گی۔
اگر مسلمانوں میں اختلاف ہوا تو پہلے تم میں ہو گا۔ جب میں نے سنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپس کے اختلاف کا ذکر کیا ہے تو میں نے سوچا کہ اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے ہیں کہ اگر اختلاف ہوا لیکن یہ اختلاف ضرور ہو کر رہے گا کیونکہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی چیز کہی ہو اور میں نے اسے ہوتے نہ دیکھا ہو۔
پھر ان کے زخموں سے بہت سا خون نکلا جس سے وہ کمزور ہو گئے ۔ وہ چھ حضرات آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگے یہاں تک کہ مجھے خطرہ ہوا کہ یہ لوگ ابھی اپنے میں کسی ایک سے بیعت ہو جائیں گے۔
اس پر میں نے کہا ابھی امیر المؤمنین زندہ ہیں اور ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہونے چاہئیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کودیکھ رہے ہوں۔ (ابھی کسی کو خلیفہ نہ بناؤ) پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے اٹھاؤ۔
چنانچہ ہم نے ان کو اٹھایا پھر انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ تین دن مشورہ کرو اور اس عرصہ میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہیں۔ ان حضرات نے پوچھا ہم کن سے مشورہ کریں۔
انہوں نے فرمایا مہاجرین اور انصار سے اور یہاں جتنے لشکر ہیں ان کے سرداروں سے۔ اس کے بعد تھوڑا سا دودھ منگوایا اور اسے پیا تو دونوں زخموں میں سے دودھ کی سفیدی باہر آنے لگی جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ موت آنے والی ہے۔ پھر فرمایا اب اگر میرے پاس ساری دنیا ہو تو میں اسے موت کے بعد آنے والے ہولناک منظر کی گھبراہٹ کے بدلے میں دینے کو تیار ہوں۔ لیکن مجھے اللہ کے فضل سے امید ہے کہ میں خیر ہی دیکھوں گا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسلی کے کلمات کہنا:۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا آپ نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے کیا یہ بات نہیں ہے کہ جس زمانے میں مسلمان مکہ میں خوف کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی کہ آپ کو ہدایت دے کر اللہ تعالیٰ دین کو اور مسلمانوں کو عزت عطا فرمائے۔
جب آپ مسلمان ہوئے تو آپ کا اسلام لانا عزت کا ذریعہ بنا، اور آپ کے ذریعہ سے اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کھلم کھلا سامنے آئے اور آپ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی اور آپ کی ہجرت فتح کا ذریعہ بنی۔ پھر جتنے غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے قتال فرمایا آپ کسی سے غیر حاضر نہ ہوئے۔
پھر حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ رسول کی خوب زور دار مدد کی اور ماننے والوں کو لے کر آپ نے نہ ماننے والوں کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ لوگ طوعاً و کراہاً اسلام میں داخل ہوگئے۔
۔(بہت سے لوگ خوشی سے داخل ہوئے۔ کچھ ماحول اور حالات سے مجبور ہو کر داخل ہوئے) پھر ان خلیفہ کا اس حال میں انتقال ہوا کہ وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ کو خلیفہ بنایا گیا اور آپ نے اس ذمہ داری کو اچھے طریقہ سے انجام دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے بہت سے نئے شہر آباد کرائے (جیسے کوفہ اور بصرہ) اور (مسلمانوں کے لئے روم و فارس کے) سارے اموال جمع کر دئیے اور آپ کے ذریعہ دشمن کا قلع قمع کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہر گھر میں آپ کے ذریعہ دین کو بھی ترقی عطا فرمائی اور رزق میں بھی وسعت عطا فرمائی اور پھر اللہ نے آپ کو خاتمہ میں شہادت کا مرتبہ عطا فرمایا۔
یہ مرتبہ شہادت آپ کو مبارک ہو۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم! تم (ایسی باتیں کر کے) جسے دھوکہ دے رہے ہواگر وہ ان باتوں کو اپنے لئے مان جائے گا تو وہ واقعی دھوکہ کھانے والا انسان ہے۔ پھر فرمایا اے عبداللہ! کیا تم قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی میرے حق میں ان تمام باتوں کی گواہی دے سکتے ہو؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا جی ہاں۔ تو فرمایا اے اللہ! تیرا شکر ہے (کہ میری گواہی دینے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تیار ہوگئے ہیں پھر فرمایا) اے عبداللہ بن عمر! میرے رخسار کو زمین پر رکھ دو (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے ان کا سر اپنی ران سے اٹھا کر اپنی پنڈلی پر رکھ دیا۔ توفرمایا نہیں۔ میرے رخسار کو زمین پر رکھ دو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ڈاڑھی اور رخسار کو اٹھا کر زمین پر رکھ دیا۔
اور فرمایا اوعمر! اگر اللہ نے تیری مغفرت نہ کی تو پھر اے عمر! تیری بھی ہلاکت ہے اور تیری ماں کی بھی ہلاکت ہے۔ اس کے بعد ان کی روح پرواز کر گئی۔ رحمہ اللہ۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو ان حضرات نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا۔ انہوں نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ لوگوں کو حکم دے گئے ہیں کہ آپ لوگ مہاجرین اور انصار سے اور جتنے لشکر یہاں موجود ہیں ان کے امراء سے مشورہ کریں اگر آپ لوگ یہ کام نہیں کرو گے تو میں آپ لوگوں کے پاس نہیں آؤں گا۔
جب حضرت حسن بصری سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت کے عمل کا اور ان کے اپنے رب سے ڈرنے کا تذکرہ کیا گیا تو انہوں نے کہا مؤمن ایسے ہی کیا کرتا ہے کہ عمل بھی اچھے طریقے سے کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا بھی ہے اور منافق عمل بھی برے کرتا ہے اوراپنے بارے میں دھوکہ میں مبتلا رہتا ہے۔
اللہ کی قسم! گزشتہ زمانے میں اور موجودہ زمانے میں، میں نے یہی پایا کہ جو بندہ اچھے عمل میں ترقی کرتا ہے وہ اللہ سے ڈرنے میں بھی ترقی کرتا ہے اور جو برے عمل میں ترقی کرتا ہے اس کا اپنے بارے میں دھوکہ بھی بڑھتاجاتا ہے۔ (اخرجہ الطبرانی)

حضرت عمروؒ سے ہی یہ روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے کہا حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔
۔(چنانچہ یہ حضرات آ گئے) ان حضرات میں سے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرمائی۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ! یہ حضرات آپ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری کو ان کے داماد ہونے کو بھی جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم اور فقہ عطا فرمایا ہے اسے بھی جانتے ہیں۔
لہٰذا اگر آپ کو خلیفہ بنا دیا جائے تو اللہ سے ڈرتے رہنا اور بنو فلاں (یعنی بنو ہاشم) کولوگوں کی گردنوں پر نہ بٹھا دینا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے عثمان رضی اللہ عنہ ! یہ حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہیں اور آپ کی عمر زیادہ ہے اور آپ بڑی شرافت والے ہیں۔
لہٰذا گر آپ کو خلیفہ بنا دیا جائے تو اللہ سے ڈرتے رہنا اور بنو فلاں (یعنی اپنے رشتہ داروں) کو لوگوں کی گردنوں پر نہ بٹھا دینا۔ پھر فرمایا حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلا کر لاؤ (وہ آئے) تو ان سے فرمایا تم لوگوں کو تین دن نماز پڑھاؤ۔
یہ (چھ) حضرات ایک گھر میں جمع رہیں۔ اگر یہ حضرات کسی ایک کے خلیفہ ہونے پر متفق ہو جائیں تو جو ان کی مخالفت کرے اس کی گردن اڑا دینا۔ (عند ابن ابی شیبۃ وابن سعد)

حضرت ابو جعفر کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرات شوریٰ سے فرمایا آپ لوگ اپنے امر خلافت کے بارے میں مشورہ کریں۔
۔(اور اگر رائے میں اختلاف ہو اور چھ حضرات) اگر دو اور دو اور دو ہو جائیں یعنی تین آدمیوں کو خلیفہ بنانے کی رائے بن رہی ہو تو پھر دوبارہ مشورہ کرنا اور اگر چار اور دو ہو جائیں تو زیادہ کی یعنی چار کی رائے کو اختیار کرلینا۔ حضرت اسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔
اگر رائے کے اختلاف کی وجہ سے یہ حضرات تین اور تین ہو جائیں تو جدھر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف ہوں ادھر کی رائے اختیار کرلینا اور ان حضرات کے فیصلہ کو سننا اور ماننا۔ (عند ابن سعد)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت ابوطلحہ (انصاری) رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا اے ابو طلحہ! تم اپنی قوم انصار کے پاس آدمی لے کر ان حضرات شوریٰ کے ساتھ رہنا۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہ اپنے میں سے کسی ایک کے گھر جمع ہوں گے تم ان کے دروازے پر اپنے ساتھی لے کر کھڑے رہنا اور کسی کو اندر نہ جانے دینا اور نہ ان کو تین دن تک چھوڑنا یہاں تک کہ یہ حضرات اپنے میں سے کسی کو امیر مقرر کر لیں۔ اے اللہ! تو ان میں میرا خلیفہ ہے۔ (کذا فی الکنز 156/3،157)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 459 – 463

Written by Huzaifa Ishaq

26 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments