حضرت عمر کی انمول نصیحتیں

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو عراق کا امیر بناتے وقت وصیت کرنا

حضرت محمد اور حضرت طلحہؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیج کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ جب وہ آ گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو عراق کی لڑائی کا امیر بنایا اور ان کو یہ وصیت فرمائی:۔
۔”اے سعد! اے قبیلہ بنو وہیب کے سعد! تم اللہ سے اس بات سے دھوکہ میں نہ پڑ جانا کہ لوگ تمہیں رسول اللہ کا ماموں اور صحابی کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتے بلکہ برائی کو اچھائی سے مٹاتے ہیں۔ اللہ کی اطاعت کے علاوہ اللہ کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں بڑے خاندان کے لوگ اور چھوٹے خاندان کے لوگ سب برابر ہیں۔ اللہ ان سب کے رب ہیں اور وہ سب اس کے بندے ہیں جو عافیت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں لیکن یہ بندے اللہ کے انعامات اطاعت سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت سے لے کر ہم سے جدا ہونے تک جس کام کو کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کام کو غور سے دیکھنا اور اس کی پابندی کرنا کیونکہ یہی اصل کام ہے یہی میری تمہیں خاص نصیحت ہے”۔
اگر تم نے اسے چھوڑ دیا اور اس کی طرف توجہ نہ دی تو تمہارے عمل ضائع ہو جائیں گے اور تم خسارے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو انہیں بلا کر فرمایا:۔
۔” میں نے تمہیں عراق کی لڑائی کا امیر بنایا ہے لہٰذا تم میری وصیت یاد رکھو تم ایسے کام کے لئے جا رہے ہو جو سخت دشوار بھی ہے اور طبیعت کے خلاف بھی ہے۔ حق پر چل کر ہی تم اس سے خلاصی پا سکتے ہو۔ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو بھلائی کا عادی بناؤ اور بھلائی کے ذریعہ ہی مدد طلب کرو۔
تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر اچھی عادت حاصل کرنے کے لئے کوئی چیز ذریعہ بنا کرتی ہے۔ بھلائی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ صبر ہے۔ ہر مصیبت اور ہر مشکل میں ضرور صبر کرنا اس طرح تمہیں اللہ کا خوف حاصل ہو گا اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کا خوف دو باتوں سے حاصل ہوتا ہے ایک اللہ کی اطاعت سے دوسرے اس کی نافرمانی سے بچنے سے۔
جس کو دنیا سے نفرت ہو اور آخرت سے محبت ہو وہ آدمی اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور جسے دنیا سے محبت اور آخرت سے نفرت ہو وہی اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور دلوں میں اللہ تعالیٰ کچھ حقیقتیں پیدا کرتے ہیں ان میں سے بعض چھپی ہوئی ہوتی ہیں اور بعض ظاہر۔
ایک ظاہری حقیقت یہ ہے کہ حق بات کے بارے میں اس کی تعریف کرنے والا اور اسے برا کہنے والا دونوں اس کے نزدیک برابر ہوں (کہ حق بات پر چلنے سے مقصود اللہ کا راضی ہونا ہے۔ لوگ چاہے برا کہیں یا تعریف کریں اس سے کوئی اثر نہ لے) اور چھپی ہوئی حقیقتیں دو نشانیوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ حکمت و معرفت کی باتیں اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری ہونے لگیں۔ دوسری یہ ہے کہ لوگ اس سے محبت کرنے لگیں۔
لہٰذا لوگوں کے محبوب بننے سے بے رغبتی اختیار نہ کرو (بلکہ اسے اپنے لئے اچھی چیز سمجھو) کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے لوگوں کی محبت اللہ سے مانگی ہے اور اللہ تعالیٰ جب بندہ سے محبت کرتے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں اور جب کسی بندے سے نفرت کرتے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں اس کی نفرت پیدا فرما دیتے ہیں۔
لہٰذا جو لوگ تمہارے ساتھ دن رات بیٹھتے ہیں ان کے دلوں میں تمہارے بارے میں (محبت یا نفرت) کا جو جذبہ ہے تم اللہ کے ہاں بھی اپنے لئے وہی سمجھ لو”۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 505 – 506

Written by Huzaifa Ishaq

29 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments