You are currently viewing حضرت عمر – ایک مثالی حکمران
اھل بیت علیہم الرضوان

حضرت عمر – ایک مثالی حکمران

حضرت عمر – ایک مثالی حکمران
چار بہترین واقعات

پہلا واقعہ

حضرت عمران کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی ضرورت پیش آتی تو بیت المال کے نگران کے پاس آتے اور اُس سے ادھار لیتے تھے ۔ بعض مرتبہ آپ تنگدست ہوتے اور بیت المال کا نگران قرض ادا کرنے کا تقاضا کرتا اور پیچھے پڑجاتا ۔ آخر حضرت عمر قرض ادا کرنے کی کوئی صورت بناتے ۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا کہ پورا ماہانہ ملنے والا وظیفہ قرض میں چلا جاتا ۔

دوسرا واقعہ

حضرت ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ خلافت میں بھی تجارت کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک تجارتی قافلہ ملک شام بھیجنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے چار ہزار قرض لینے کے لئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس آدمی بھیجا ۔ حضرت عبدالرحمن نے اس قاصد سے کہا کہ جا کر امیر المومنین سے کہہ دو کہ اپنے بیت المال سے قرض لے لیں ۔ بعد میں واپس کردیں ۔
جب قاصد نے واپس آکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انکا جواب بتایا تو حضرت عمر کو بڑی گرانی ہوئی ۔ پھر جب آپکی ملاقات ہوئی تو امیر المومنین نے پوچھا: اے عبدالرحمن ! کیا تم نے ہی کہا تھا کہ عمر چار ہزار بیت المال سے ادھار لے لے ۔ اگر میں بیت المال سے ادھار لے لوں اور تجارتی قافلہ والوں کو دے دوں پھر تجارتی قافلے والوں کے آنے سے پہلے میں مرجاؤں تو تمہی لوگ کہو گے کہ امیر المومنین نے بیت المال میں سے چار ہزار روپیہ لے لئے تھے ۔ اب اُنکی خاطر چھوڑ دو ۔ تمہارے چھوڑ دینے سے وہ میرے ذمہ ہوجائیں گے اور قیامت کے دن مجھے پکڑا جائے گا ۔
میں بیت المال سے بالکل نہیں لوں گا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تم جیسے لالچی اور کنجوس آدمی سے ادھار لے لوں تاکہ میں مر جاؤں تو میرے مال میں سے اپنا ادھار تم زبردستی وصول کر لو ۔

تیسرا واقعہ

حضرت حسن کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک مرتبہ کہیں سے مال آیا تو اُنکی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اطلاع ملی ۔ انہوں نے آکر حضرت عمر سے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس لئے اس مال میں آپکے رشتہ داروں کا بھی حق ہے ۔
حضرت عمر نے فرمایا: اے میری بیٹی ! میرے رشتہ داروں کا حق میرے مال میں ہے جبکہ یہ تو مسلمانوں کا مال غنیمت ہے ۔ تم اپنے باپ کو دھوکہ دینا چاہتی ہو ؟ ۔ یہاں سے جاؤ ۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھڑی ہوگئیں ۔ اور چادر کا دامن گھسیٹتی ہوئی واپس چلی گئی ۔

چوتھا واقعہ

حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری شادی کی تو ایک ماہ تک اللہ کے مال یعنی بیت المال میں سے مجھے خرچہ دیتے رہے ۔ پھر اسکے بعد حضرت عمر نے اپنے ایک دربان یرفاکو بھیجا جو مجھے بلا کرلے گیا ۔ میں جب خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا: میں خلیفہ بننے سے پہلے بھی یہی سمجھتا تھا کہ میرے لئے بیت المال سے اپنے حق سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے اور اب خلیفہ بننے کے بعد یہ مال میرے لئے اور زیادہ حرام ہوگیا ہے کیونکہ یہ اب میرے پاس بطور امانت ہے ۔ میں تمہیں اس میں سے ایک ماہ کا خرچ دے چکا ہوں ۔ اب اور نہیں دے سکتا ۔
البتہ میں تمہاری اس طرح مدد کرسکتا ہوں کہ غابہ میں میری ایک جائیداد ہے ۔ تم اُسکا پھل کاٹ کر بیچو ۔ پھر اُسکے پیسے لے کر اپنی قوم کے کسی تاجر کے پاس جاؤ اور اُسکے ساتھ معاملہ کرو۔ اس طرح اپنے گھر کا خرچ چلاؤ ۔

از کتاب : اھل بیت ۔ صفحہ نمبر 224۔