حضرت علی بن ابی طالب کے دو قیمتی خطوط

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا اپنے امیروں کو وصیت کرنا

حضرت مہاجر عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک ساتھی کو کسی شہر کا گورنر بنا رکھا تھا۔ اسے یہ خط لکھا:۔
۔” اما بعد! تم اپنی رعایا سے زیادہ دیر غائب نہ رہو (جب کسی ضرورت کی وجہ سے ان سے الگ ہونا پڑے تو ان کے پاس جلدی واپس آجاؤ) کیونکہ امیر کے رعایا سے الگ رہنے کی وجہ سے لوگ تنگ ہوں گے اور خود امیر کو لوگوں کے حالات تھوڑے معلوم ہو سکیں گے بلکہ جن سے الگ رہے گا ان کے حالات بالکل معلوم نہ ہو سکیں گے
جب امیر لوگوں کے ساتھ میل جول نہیں رکھے گا بلکہ الگ رہے گا تو اسے سنی سنائی باتوں پر ہی کام چلانا پڑے گا اس طرح سارا دارومدار سنانے والوں پر آ جائے گا اور سنانے والوں میں غلط لوگ بھی ہو سکتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر اس کے سامنے بڑی چیز کو چھوٹا اور چھوٹی چیز کو بڑا اور اچھی چیز کو برا اور بری چیز کو اچھا بنا کرپیش کیا جائے گا اور یوں حق باطل کے ساتھ خلط ملط ہو جائے گا اور امیر بھی انسان ہی ہے۔
لوگ اس سے چھپ کر جو کام کر رہے ہیں وہ ان کو نہیں جانتا ہے اور انسان کی ہر بات پر ایسی نشانیاں نہیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ اس کی یہ بات سچی ہے یا جھوٹی۔ لہٰذا اب اس کا حل یہی ہے کہ امیر اپنے پاس لوگوں کی آمدورفت کو آسان اور عام رکھے
۔(جب لوگ اس کے پاس زیادہ آئیں گے تو اسے حالات زیادہ معلوم ہوسکیں گے اور پھر یہ فیصلہ صحیح کر سکے گا ) اور اس طرح یہ امیر ہر ایک کو اس کا حق دے سکے گا اور ایک کا دوسرے کو دینے سے محفوظ رہے گا لہٰذا تم ان دو قسم کے آدمیوں میں سے ایک قسم کے ضرور ہو گے۔
یا تو تم سخی آدمی ہو گے اور حق میں خرچ کرنے میں تمہارا ہاتھ بہت کھلا ہو گا اگر تم ایسے ہو اور تم نے لوگوں کو دینا ہی ہے اور ان سے اچھے اخلاق سے پیش آنا ہی ہے تو پھر تمہیں لوگوں سے الگ رہنے کی کیا ضرورت؟
اور اگر تم کنجوس ہو۔ اپنا سب کچھ روک کر رکھنے کی طبیعت رکھتے ہو تو پھر تو لوگ چند دن تمہارے پاس آئیں گے اور جب انہیں تم سے کچھ ملے گا نہیں تو وہ خود ہی مایوس ہو کر تمہارے پاس آنا چھوڑ دیں گے۔
اس صورت میں بھی تمہیں ان سے الگ رہنے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی لوگ تمہارے پاس اپنی ضرورتیں ہی لے کر آتے ہیں کہ یا تو کسی ظالم کی شکایت کریں گے یا تم سے انصاف کے طالب ہوں گے اور یہ ضرورتیں ایسی ہیں کہ ان کے پورا کرنے میں تم پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا
۔( لہٰذا لوگوں سے الگ رہنے کی ضرورت نہیں ہے) اس لئے میں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کر کے اس سے فائدہ اٹھاؤ اور میں تمہیں صرف وہی باتیں لکھ رہا ہوں جن میں تمہارا فائدہ ہے اور جن سے تمہیں ہدایت ملے گی انشاء اللہ”۔

دوسرا خط:۔

حضرت مدائنیؒ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک امیر کو یہ خط لکھا:۔
۔” ٹھہرو اور یوں سمجھو کہ تم زندگی کے آخری کنارے پر پہنچ گئے ہو۔ تمہاری موت کا وقت آ گیا ہے اور تمہارے اعمال تمہارے سامنے اس جگہ پیش کئے جا رہے ہیں جہاں دنیا کے دھوکہ میں پڑا ہوا “ہائے” حسرت کا پکارے گا اور زندگی ضائع کرنے والا تمنا کرے گا کہ کاش میں توبہ کر لیتا اور ظالم تمنا کرے گا کہ اسے (ایک دفعہ پھر دنیا میں) واپس بھیج دیا جائے (تاکہ وہ نیک عمل کر کے آئے اور یہ جگہ میدان حشر ہے)”۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 510 – 511

Written by Huzaifa Ishaq

29 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments