حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہما کا سختیاں برداشت کرنا

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ملک روم کی طرف ایک لشکر بھیجا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہما نامی ایک صحابی بھی تھے۔
ان کو رومیوں نے گرفتار کر لیا اور پھر ان کو اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے (جس کا لقب طاغیہ تھا) اور اسے بتایا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں تو طاغیہ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہما سے کہا کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ تم (اسلام چھوڑ کر) نصرانی بن جاؤ۔
اور میں تمہیں اپنے ملک اور سلطنت میں شریک کر لوں؟ (یعنی آدھا ملک میں تمہیں دے دوں گا) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پلک جھپکنے جتنی دیر کے لئے چھوڑنے پر اپنا سارا ملک بھی دے دو اورعربوں کا ملک بھی دے دو تو میں پھر بھی تیار نہیں ہوں۔
تو اس پر طاغیہ نے کہا پھر تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ انہوں نے کہا تم جو چاہے کرو چنانچہ اس کے حکم دینے پر ان کو سولی پر لٹکا دیا گیا اس نے تیر اندازوں سے کہا کہ اس طرح تیر ان پر چلاؤ کہ ان کے ہاتھوں اور پیروں کے پاس سے تیر گزریں (جس سے یہ مرنے نہ پائیں اور خوفزدہ ہو جائیں) چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
اب بادشاہ نے ان پر عیسائیت کو پھر پیش کیا لیکن یہ انکار کرتے رہے۔ پھر اس کے حکم دینے پر ان کو سولی سے اتارا گیا۔ پھر اس بادشاہ نے ایک دیگ منگوائی جس میں پانی ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی اور وہ پانی گرم ہو کر کھولنے لگا پھر اس نے دو مسلمان قیدی بلوائے اور ان میں سے ایک مسلمان کو (زندہ ہی) اس کھولتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا گیا (یہ خوفناک منظر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دکھا کر) اس بادشاہ نے ان پر پھر نصرانیت کو پیش کیا لیکن انہوں نے پھر انکار کیا۔
اب بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو (زندہ) دیگ میں ڈال دیا جائے جب سپاہی ان کو (دیگ کی طرف) لے کر جانے لگے تو یہ رو پڑے۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ اب تو وہ رو پڑے ہیں۔ وہ سمجھا کہ اب یہ (موت سے) گھبرا گئے ہیں چنانچہ اس نے کہا انہیں میرے پاس واپس لاؤ۔ چنانچہ ان کو واپس لایا گیا۔ اب بادشاہ نے پھر ان پر نصرانیت کو پیش کیا۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔
اس پر بادشاہ نے کہا کہ اچھا تم کیوں رو رہے تھے؟ انہوں نے فرمایا میں اس لئے رویا تھا کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ تجھے اب اس دیگ میں ڈالا جائے گا اور تو ختم ہو جائے گا میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے جسم پر جتنے بال ہیں اتنی میرے پاس جانیں ہوں اور ہر جان کو اللہ کے دین کی وجہ سے اس دیگ میں ڈالا جائے (میں تو اس وجہ سے رو رہا تھا کہ میرے پاس بس ایک ہی جان ہے) اس طاغیہ بادشاہ نے (ان کے اس جواب سے متاثر ہو کر) کہا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تم میرے سر کا بوسہ لے لو اور میں تمہیں چھوڑ دوں؟۔
تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ باقی تمام مسلمان قیدیوں کو بھی چھوڑ دو گے؟ بادشاہ نے کہا ہاں باقی تمام مسلمان قیدیوں کوبھی چھوڑ دوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا یہ اللہ کے دشمنوں میں سے ایک دشمن ہے۔ میں اس کے سر کا بوسہ لے لوں گا۔
یہ مجھے اور تمام مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دے گا (اس سے تو سارے مسلمانوں کا فائدہ ہو جائے گا۔ میرا دل تو اس کام کو نہیں چاہ رہا ہے لیکن میں مسلمانوں کے فائدے کے لئے کر لیتا ہوں) چلو اس میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ بادشاہ کے قریب جا کر انہوں نے اس کے سر کا بوسہ لیا۔ بادشاہ نے سارے قیدی ان کے حوالے کر دئیے۔
یہ ان سب کو لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سارے حالات بتائے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ رضی اﷲ عنہما کے سر کا بوسہ لے اور سب سے پہلے میں لیتا ہوں چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان کے سر کا بوسہ لیا (تاکہ اللہ کے دشمنوں کو چومنے کو جو ناگواری حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دل میں تھی وہ دور ہو جائے)۔ (اخرجہ البیہقی وابن عساکر کذا فی کنزالعمال 62/7)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 241 – 242