حضرت عائشہ کا واقعہ افک

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت عائشہ کا واقعہ افک

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے جس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے جاتے ۔
جب غزوہ بنی مصطلق پیش آیا تو اپنی عادت شریفہ کے مطابق اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرمائی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لئے میرا نام آیا ۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ساتھ لے کر اس سفر میں تشریف لے گئے ۔ اس زمانے میں عورتیں گزارے کے بقدر بہت کم کھایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے گوشت کم ہوتا تھا اور جسم بھاری نہیں ہوا کرتا تھا ۔
جب لوگ میرے اونٹ پر کجاوہ باندھنے لگتے تو میں اپنے ہودج میں بیٹھ جاتی، پھر وہ لوگ آتے جو میرے اونٹ پر کجاوہ باندھتے اور ہودج کو نیچے سے پکڑ کر مجھے اٹھاتے اور اونٹ کی پشت پر رکھ کر اسے رسی سے باندھ دیتے ۔
پھر اونٹ کی رسی کو آگے سے پکڑ کر لے چلتے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر پورا ہوگیا تو آپ نے واپسی میں مدینہ کے قریب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور رات کا کچھ حصہ وہاں گزارا ۔ پھر منادی نے لوگوں میں وہاں سے کوچ کرنے کا اعلان کیا ۔
چنانچہ لوگ وہاں سے چل پڑے ۔ میں اس وقت قضائے حاجت کے لئے باہر گئی ہوئی تھی۔ میرے گلے میں ایک ہار تھا جو یمن کے (قبیلہ حمیر کے شہر) ظفار کی کوڑیوں کا بنا ہوا تھا۔
جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر اٹھی تو وہ میرے گلے سے گر گیا اور مجھے پتہ نہ چلا ۔ جب میں کجاوے کے پاس پہنچی تو میں نے اس ہار کو اپنی گردن میں تلاش کیا تو وہ مجھے نہ ملا اور لوگوں نے وہاں سے چلنا شروع کر دیا ۔
میں جس جگہ گئی تھی وہاں جا کر میں نے اسے تلاش کیا ۔ مجھے وہاں مل گیا ۔ جو لوگ میرے اونٹ کا کجاوہ باندھا کرتے تھے وہ کجاوہ باندھ چکے تھے ۔ وہ میرے بعد آئے اور یہ سمجھے کہ میں اپنی عادت کے مطابق ہودج میں ہوں ۔
اس لئے انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر باندھ دیا (انہیں ہودج کے ہلکا ہونے کا احساس بھی نہ ہوا کیونکہ میرا جسم بہت ہلکا تھا) اور انہیں میرے اس میں نہ ہونے کا شک بھی نہ گزرا ۔
پھر وہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلے گئے ۔ میں جب لشکر کی جگہ واپس آئی تو وہاں کوئی نہیں تھا، سب لوگ جا چکے تھے ۔ میں اپنی چادر میں لپٹ گئی اور اسی جگہ لیٹ گئی اور مجھے یقین تھا کہ جب میں نہیں ملوں گی تو لوگ مجھے تلاش کرنے یہاں واپس آئیں گے ۔ اللہ کی قسم ! میں وہاں لیٹی ہوئی تھی کہ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہما میرے پاس سے گزرے ۔ وہ اپنی کسی ضرورت سے لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے ۔
اس لئے انہوں نے یہ رات لوگوں کے ساتھ نہ گزاری ۔ انہوں نے جب میرا وجود دیکھا تو آکر میرے پاس کھڑے ہوگئے اور پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا ۔ اس لئے انہوں نے جب مجھے دیکھا تو (مجھے پہچان لیا اور) کہا:۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں ۔
حالانکہ میں کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھی ۔ حضرت صفوان نے کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ کیسے پیچھے رہ گئی ہیں ؟
فرماتی ہیں میں نے ان کو کوئی جواب نہ دیا ۔
پھر انہوں نے اونٹ میرے قریب لا کر کہا اس پر سوار ہو جاؤ اور خود میرے سے دور چلے گئے۔
چنانچہ میں سوار ہوگئی ۔ اور انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر لوگوں کی تلاش میں تیز تیز چلنا شروع کر دیا ۔ صبح تک ہم لوگوں تک نہ پہنچ سکے اور نہ ہی لوگوں کو میرے نہ ہونے کا پتہ چل سکا ۔ ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا ۔ جب وہ لوگ وہاں ٹھہر گئے تو اتنے میں یہ (حضرت صفوان) مجھے اونٹ پر بٹھائے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے وہاں پہنچ گئے ۔

اس پر افک والوں نے (تہمت باندھنے والوں نے) جو بات بنانی تھی وہ بنا کر کہنی شروع کر دی۔ اور سارے لشکر میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ اللہ کی قسم ! مجھے کسی بات کی خبر نہیں تھی ۔
پھر ہم مدینہ آگئے وہاں پہنچتے ہی میں بہت زیادہ بیمار ہوگئی اور لوگوں میں جو باتیں ہو رہی تھیں ان میں سے کوئی بات بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی ۔ البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے والدین تک ساری بات پہنچ چکی تھی ۔
لیکن کسی نے مجھ سے کسی قسم کا تذکرہ نہ کیا ۔ ہاں اتنی بات ضرور تھی کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پہلے والی عنایت نہ دیکھی ۔ میں جب بیمار ہو جاتی تھی تو آپ مجھ پر بہت شفقت اور مہربانی فرماتے تھے ۔ آپ نے میری اس بیماری میں وہ کچھ بھی نہ کیا ۔ مجھے آپ کی اس بات سے کچھ کھٹک محسوس ہوئی ۔
آپ جب گھر میں داخل ہوتے اور میرے پاس آتے اور میرے پاس میری والدہ کو تیمار داری میں مشغول دیکھتے تو بس اتنا فرماتے کہ اب اس کا کیا حال ہے ؟ اس سے زیادہ کچھ نہ فرماتے ۔
آپ کی اس بے رخی کو دیکھ کر مجھے بڑی پریشانی ہوئی اور اس بے رخی کو دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے اجازت دیں تو میں اپنی والدہ کے پاس چلی جاتی ہوں وہ میری تیمار داری بھی کرتی رہیں گی ۔
آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے،تم جا سکتی ہو ۔
چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی گئی اور جو کچھ مدینہ میں ہو رہا تھا مجھے اس کی کچھ خبر نہیں تھی ۔
بیس دن سے زیادہ گزرنے کے بعد میری صحت ٹھیک ہوئی لیکن ابھی کمزوری باقی تھی اور ہم لوگ اپنے گھروں میں بیت الخلاء نہیں بنایا کرتے تھے جیسے عجمی لوگ بناتے تھے بلکہ گھروں میں بیت الخلاء کو برا سمجھتے تھے، قضائے حاجت کے لئے ہم لوگ مدینہ کے صحرا میں جایا کرتے تھے اور عورتیں قضائے حاجت کے لئے رات کو جایا کرتی تھیں ۔
ایک رات میں قضائے حاجت کے لئے باہر نکلی اور میرے ساتھ حضرت ام مسطح رضی اللہ عنہا بنت ابی رہم بن مطلب بھی تھیں اللہ کی قسم ! وہ میرے ساتھ جارہی تھیں کہ ان کا پاؤں چادر میں اٹکا اور وہ گر گئیں تو انہوں نے کہا مسطح برباد ہو ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم ! تم نے برا کیا ۔
ایک مہاجری جو کہ غزوہ بدر میں شریک ہوا اس کو تم نے کیا کہہ دیا ۔ حضرت ام مسطح رضی اللہ عنہا نے کہا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ! کیا ابھی تک تمہیں خبر نہیں پہنچی ؟ میں نے کہا کیسی خبر ؟ اس پر انہوں نے مجھے اہل افک کی ساری بات بتائی ۔ میں نے کہا ایسی بات وہ کہہ چکے ہیں، انہوں نے کہا ہاں ۔
اللہ کی قسم ! یہ بات انہوں نے کہی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کی قسم ! (یہ بات سن کر میری حالت تو ایسی ہوگئی کہ) میں قضائے حاجت پوری نہ کر سکی ۔ اور میں واپس آگئی ۔
اللہ کی قسم ! پھر تو میں روتی رہی اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ زیادہ رونے کی وجہ سے میرا جگر پھٹ جائے گا ۔ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا اللہ آپ کی مغفرت فرمائے لوگوں نے تو اتنی باتیں بنا لیں اور آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا ۔
انہوں نے کہا اے میری بیٹی ! تم زیادہ پریشان نہ ہو اللہ کی قسم ! جب کسی آدمی کی کوئی خوبصورت بیوی ہو اور وہ اس سے محبت بھی کرتا ہو اور اس عورت کی اور سوکن عورتیں بھی ہوں تو یہ سوکن عورتیں اور دوسرے لوگ اس کے عیب کے بارے میں زیادہ باتیں ضرور کریں گے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں میں بیان فرمایا اور مجھے اس بات کا کوئی علم نہ تھا ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگو ! ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ مجھے میرے گھر والوں کے بارے میں تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ اور ان پر ناحق الزام لگاتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! مجھے تو اپنے گھر والوں کے بارے میں ہمیشہ بھلائی ہی نظر آئی ہے ۔ اور اللہ کی قسم ! جس مرد پر الزام لگا رہے ہیں اس میں ہمیشہ بھلائی ہی نظر آئی ہے جب بھی وہ میرے کسی گھر میں داخل ہوا ہے، وہ میرے ساتھ ہی داخل ہوا ہے ۔
اس بہتان کے اٹھانے اور بڑھانے میں سب سے زیادہ حصہ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق نے لیا تھا اور قبیلہ خزرج کے کئی آدمیوں اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہ اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہما نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا ۔
حضرت حمنہ رضی اللہ عنہ کے دلچسپی لینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات میں سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں قدر و منزلت میں میری برابری کرتی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو ان کی دینداری کی برکت سے محفوظ رکھا ۔ اس لئے انہوں نے میرے بارے میں بھلائی کی بات ہی کہی لیکن حضرت حمنہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کی وجہ سے میری ضد میں آکر اس بات کو بہت اچھالا اور پھیلایا، اس لئے وہ گناہ لے کر بدبخت بنیں ۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر وہ الزام لگانے والے (ہمارے قبیلہ) اوس میں سے ہیں تو آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان سے نمٹ لیں گے ۔ اور اگر وہ ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہیں تو آپ ان کے بارے میں جو ارشاد فرمائیں ہم ویسے ہی کریں گے ۔
اللہ کی قسم ! ان کی تو گردن اڑا دینی چاہئے ۔ اس پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کھڑے ہوگئے ۔ اور انہیں اس سے پہلے نیک اور بھلا آدمی سمجھا جاتا تھا ۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! تم نے غلط کہا ۔
ان لوگوں کی گردن نہیں اڑائی جا سکتی ۔ اللہ کی قسم ! تم نے یہ بات صرف اس وجہ سے کہی ہے کہ تمہیں پتہ ہے کہ وہ لوگ خزرج میں سے ہیں ۔ اگر وہ تمہاری قوم میں سے ہوتے تو تم یہ بات ہرگز نہ کہتے ۔
حضرت اسید بن حضیر نے کہا اللہ کی قسم ! تم غلط کہہ رہے ہو ۔ تم خود منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے لڑ رہے ہو ۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور اوس و خزرج کے دونوں قبیلوں میں لڑائی ہونے ہی والی تھی ۔
۔(لیکن لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر میرے پاس تشریف لائے اور وحی آنہیں رہی تھی اس لئے آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان سے اپنے گھر والوں کو (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو) چھوڑنے کے بارے میں مشورہ لیا ۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے بارے میں تعریف ہی کی اور خیر کی بات ہی کہی ۔ پھر کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنے گھر والوں کو رکھیں کیونکہ ہم نے ان سے ہمیشہ خیر اور بھلاہی دیکھا ہے اور یہ بہتان سب جھوٹ اور غلط ہے ۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عورتیں بہت ہیں، آپ ان کی جگہ کسی اور کو لانے پر قادر ہیں اور آپ باندی سے پوچھ لیں وہ آپ کو ساری سچی بات بتا دے گی ۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو پوچھنے کے لئے بلایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر حضرت بریرہ کی خوب پٹائی کی اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی بات کہنا، تو حضرت بریرہ نے کہا اللہ کی قسم ! مجھے ان کے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے) بارے میں نیکی اور بھلائی کے علاوہ اور کچھ معلوم نہیں ہے ۔
اور مجھے ان میں اور کوئی عیب نظر نہیں آتا ہے صرف یہ عیب نظر آتا ہے کہ میں انہیں آٹا گوندھ کر دیتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں کہ اس آٹے کو سنبھال کر رکھنا ۔ یہ بے خیالی میں سو جاتی ہیں ۔ بکری آکر آٹے کو کھا جاتی ہے ۔
اس کے بعد ایک مرتبہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ۔ میرے والدین بھی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ایک انصاری عورت بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ میں بھی رو رہی تھی اور وہ عورت بھی رو رہی تھی ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے عائشہ ! لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ بات تم تک پہنچ چکی ہے ۔ اس لئے تم اللہ سے ڈرو ۔ اور لوگ جو کہہ رہے ہیں اگر واقعی تم سے کوئی برا کام ہوگیا ہے تو تم اللہ سے توبہ کر لو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں ۔
اللہ کی قسم ! آپ کے یہ فرماتے ہی میرے آنسو ایک دم رک گئے اس کے بعد ایک قطرہ بھی نہ نکلا ۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا کہ میرے والدین میری طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں لیکن وہ دونوں کچھ نہ بولے ۔ اللہ کی قسم ! میں اپنا درجہ اتنا بڑا نہیں سمجھتی تھی کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ مستقل آیات نازل فرما دیں گے جن کی تلاوت کی جاتی رہے گی اور جن کو نماز میں پڑھا جاتا رہے گا ۔
لیکن مجھے اس کی امید تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا خواب دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے اس الزام سے بری کر دیں گے کیونکہ اللہ کو تو معلوم ہے کہ میں اس الزام سے بالکل پاک و صاف اور بری ہوں ۔ میرے بارے میں قرآن نازل ہو جائے میں اپنا درجہ اس سے کم سمجھتی تھی ۔
جب میں نے دیکھا کہ میرے والدین جواب دینے کے لئے بول نہیں رہے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب کیوں نہیں دیتے ہیں ؟
دونوں نے کہا ! اللہ کی قسم ہمیں پتہ نہیں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں مجھے کوئی ایسے گھر والے معلوم نہیں ہیں کہ جن کو اتنی پریشانی آئی ہو جتنی ان دنوں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خاندان والوں کو آئی تھی ۔
جب میرے والدین نے میرے بارے میں کچھ نہیں کہا تو میرے آنسو نکل آئے اور میں رو پڑی ۔ پھر میں نے کہا اللہ کی قسم ! آپ نے جو فرمایا ہے میں اس سے کبھی توبہ نہیں کروں گی (کیونکہ یہ کام میں نے کیا ہی نہیں ہے) اللہ کی قسم ! کیونکہ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ لوگ جو کہہ رہے ہیں اگر میں اس کا اقرار کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں اس سے بری ہوں تو میں ایسی بات کا اقرر کروں گی جو ہوئی نہیں ہے ۔
اور لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ اگر میں اس کا انکار کروں تو آپ لوگ مجھے سچا نہیں مانیں گے ۔ پھر میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام لینا چاہا لیکن اس وقت مجھے یاد نہ آیا ۔
تو میں نے کہا کہ اب میں بھی وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف کے والد نے کہا تھا یعنی : (فَصَبرٌ جَمِیلٌ وَاللہ المُستَعَانُ عَلٰی مَاتَصِفُونَ)۔(سورۃ یوسف) “اب صبر ہی بہتر ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگتا ہوں اس بات پر جو تم ظاہر کرتے ہو”۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس سے ابھی اٹھے نہیں تھے کہ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہونے لگی اور حسب سابق آپ پر غشی طاری ہوگئی ۔
آپ کو آپ کے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا اور چمڑے کا ایک تکیہ آپ کے سر کے نیچے رکھ دیا گیا ۔ میں نے جب (وحی نازل ہونے کا) یہ منظر دیکھا تو نہ میں گھبرائی اور نہ میں نے اس کی پرواہ کی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میں بے قصور ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائیں گے اور اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں عائشہ کی جان ہے، میرے والدین پر اس وقت سخت پریشانی کی حالت تھی ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حالت دور نہیں ہوئی تھی کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اس ڈر سے میرے والدین کی جان نکل جائے گی کہ کہیں اللہ کی طرف سے لوگوں کی بات کی تصدیق نہ آجائے ۔
پھر جب آپ کی حالت ٹھیک ہوگئی تو آپ بیٹھ گئے تو حالانکہ سردی کا موسم تھا لیکن آپ کے چہرہ مبارک سے موتیوں کی مانند پسینہ ڈھلک رہا تھا ۔ آپ اپنے چہرہ سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے اسے عائشہ ! تمہیں خوشخبری ہو ۔ اللہ عزوجل نے تمہاری برأت نازل فرما دی ہے ۔
میں نے کہا الحمدللہ ! پھر آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے اور ان میں بیان فرمایا اور اس بارے میں جو قرآن اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا وہ لوگوں کو پڑھ کر سنایا ۔
پھر حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہما اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہما اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہما کے بارے میں حکم فرمایا ۔ جس پر انہیں حد لگائی گئی ۔
ان حضرات نے اس بے حیائی کی بات پھیلانے میں حصہ لیا تھا ۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 434 – 440

Written by Huzaifa Ishaq

26 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments