حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بھوک

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بھوک

حضرت مجاہدؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! میں بھوک کی وجہ سے اپنے جگر کو زمین سے چپٹا دیتا تھا اور بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔
ایک دن میں اس راستہ پر بیٹھ گیا جس راستے سے یہ حضرات آتے جاتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا میں نے تو صرف اس لئے پوچھا تھا تاکہ یہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔
۔(غالباً ان کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوا یا ان کو اپنے گھر کا حال معلوم ہوگا کہ وہاں بھی کچھ نہیں ہے) پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے میں نے ان سے بھی کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا میں نے تو صرف اس لئے پوچھا تھا تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اتنے میں حضرت ابوالقاسم (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کا وہاں سے گزر ہوا۔
آپ نے میرے چہرہ کا (خستہ) حال دیکھ کر میرے دل کی بات پہچان لی اور فرمایا او ابوہریرہ!۔
میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا میرے ساتھ آؤ (میں ساتھ ہو لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے) میں نے گھر کے اندر آنے کی اجازت چاہی۔
آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے گھر میں دودھ کا ایک پیالہ رکھا ہوا پایا۔
آپ نے (اپنے گھر والوں سے) پوچھا یہ دودھ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ فلاں نے (یا کہا فلاں کے گھر والوں نے) ہمیں ہدیہ میں بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابو ہر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار و شفقت کی وجہ سے ان کے نام ابوہریرہ کو مختصر کر کے ابوہر کردیا) میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا جاؤ اہل صفہ کو میرے پاس بلا لاؤ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان تھے جن کا نہ کوئی گھر تھا اور نہ ان کے پاس مال تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ آتا تو خود بھی استعمال فرماتے اور اہل صفہ کو بھی دے دیتے اور جب آپ کے پاس صدقہ آتا تو خود استعمال نہ فرماتے بلکہ وہ سارے کا سارا اہل صفہ کے پاس بھیج دیتے اور اس میں سے خود کچھ استعمال نہ فرماتے۔ اہل صفہ کو بلانے سے مجھے بڑی پریشانی ہوئی کیونکہ مجھے امید تھی کہ اس دودھ میں سے مجھے اتنا مل جائے گا کہ جس سے باقی ایک دن رات آسانی سے گزر جائے گا اور پھر میں ہی قاصد بن کر جا رہا ہوں جب وہ لوگ آئیں گے تو میں ہی ان کو (دودھ پینے کو) دوں گا۔
تو میرے لئے تو دودھ کچھ نہیں بچے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی مانے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں گیا اور ان کو بلا لایا۔ انہوں نے آ کر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی) اجازت مانگی۔ آپ نے ان کو اجازت دی۔ وہ گھر کے اندر آ کر اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (یہ پیالہ) لو اور ان کو دینا شروع کرو۔
میں نے پیالہ لے کر ان کو دینا شروع کیا۔ ہر آدمی پیالہ لیتا اور اتنا پیتا کہ سیراب ہو جاتا۔ پھر مجھے پیالہ واپس کرتا حتیٰ کہ میں نے سب کو پلا دیا اور وہ پیالا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے پیالہ اپنے دست مبارک میں لیا اور ابھی اس میں دودھ باقی تھا پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا اے ابوہریرہ! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا بس میں اور تم باقی رہ گئے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے سچ فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لو اب تم بیٹھ جاؤ اور تم پیو۔ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور میں نے خوب دودھ پیا۔ آپ نے فرمایا اور پیو میں نے اور پیا۔ آپ مجھ سے بار بار فرماتے رہے کہ اور پیو اور میں اور پیتا رہا یہاں تک کہ میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اب میں اپنے میں اس دودھ کے لئے کوئی راستہ نہیں پاتا ہوں یعنی اور دودھ پینے کی گنجائش نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا اچھا پیالہ مجھے دے دو میں نے آپ کو پیالہ دیا آپ نے وہ بچا ہوا دودھ نوش فرمایا۔ (اخرجہ احمد واخرجہ الحاکم وقال صحیح علی شرطھما)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ پر تین دن ایسے گزرے کہ مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا میں گھر سے صفہ جانے کے ارادہ سے چلا لیکن میں (راستہ میں کمزوری کی وجہ سے) گرنے لگا مجھے (دیکھ کر) بچے کہتے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جنون ہو گیا ہے میں پکار کر کہتا نہیں۔ تم مجنون ہو۔
یہاں تک کہ ہم صفہ پہنچ گئے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو پیالے ثرید لایا گیا ہے اور آپ نے اہل صفہ کو بلا رکھا ہے اور وہ ثرید کھا رہے ہیں۔ میں گردن اونچی کر کے دیکھنے لگا۔ تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بلالیں (میں اس کوشش میں تھا (کہ اہل صفہ (کھانے سے فارغ ہو کر) کھڑے ہو گئے اور پیالہ کے کناروں میں تھوڑا سا کھانا بچا ہوا تھا اس سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع فرمایا تو ایک لقمہ بن گیا جسے آپ نے اپنی انگلیوں پر رکھ کرمجھ سے فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں اس لقمہ میں سے کھاتا رہا یہاں تک کہ میرا پیٹ بھر گیا (اور لقمہ ختم نہ ہوا)۔ (اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ کذا فی الترغیب176/5)
حضرت عبداللہ بن شقیقؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ میں ایک سال رہا۔ ایک دن ہم لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ شریف کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
آپ نے مجھ سے کہا کہ ہم لوگوں نے اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ ہمارے کپڑے صرف کھردری اور موٹی چادریں ہوا کرتے تھے اور کئی کئی دن گزر جاتے تھے اور ہمیں اتنا بھی کھانا نہیں ملتا تھا کہ جس سے ہم اپنی کمر سیدھی کر سکیں۔ اور ہمارا پیٹ اندر کو پچکا ہوا ہوتا تھا۔ اس پر پتھر رکھ کر ہم اسے کپڑے سے باندھ لیا کرتے تھے تاکہ ہماری کمر سیدھی رہے۔
امام احمدؒ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمارا کھانا صرف کھجور اور پانی تھا۔ اللہ کی قسم! ہمیں تمہاری یہ گندم نظر بھی نہیں آتی تھی اور ہمیں پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ گندم کیا چیز ہوتی ہے؟
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمارا لباس دیہاتیوں والی اونی چادر تھا۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 251 – 253

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments