حضرت ابوذر غفاری کا قبول اسلام

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت ابوذر غفاری کا قبول اسلام کا ایمان افروز واقعہ
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا سختیاں برداشت کرنا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:۔
جب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا تم اس وادی (مکہ) کو جاؤ اور جو آدمی یہ کہتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے اس کے حالات معلوم کرو۔ اس کی باتیں سنو اور پھر مجھے آ کر بتاؤ۔
چنانچہ ان کے بھائی مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے۔ آپ کی باتیں سنیں۔ پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو واپس آ کر بتایا کہ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ عمدہ اخلاق اختیار کرنے کا حکم دے رہے تھے اور انہوں نے ایسا کلام سنایا جو شعر نہیں تھا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہاری باتوں سے میری تسلی نہیں ہوئی جو میں معلوم کرنا چاہتا تھا وہ مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ چنانچہ انہوں نے زاد سفر لیا اور پانی کا مشکیزہ بھی سواری پر رکھا (اور چل پڑے) یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے اور مسجد حرام میں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور لوگوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھنا انہوں نے (حالات کی وجہ سے) مناسب نہ سمجھا۔
یہاں تک کہ رات آ گئی تو یہ وہیں لیٹ گئے تو ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ پردیسی مسافر ہیں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ان کے پیچھے ہو لئے (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی میزبانی کی) لیکن دونوں میں سے کسی نے دوسرے سے کچھ نہ پوچھا اور یونہی صبح ہو گئی۔
وہ اپنا مشکیزہ اور زاد سفر لے کر پھر مسجد حرام آ گئے اور سارا دن وہاں ہی رہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہ دیکھا یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ یہ اپنے لیٹنے کی جگہ واپس آئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کے پاس سے گزر ہوا۔ انہوں نے کہا کیا اس آدمی کے لئے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ اپنا ٹھکانہ جان لے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اٹھایا اور ان کو اپنے ساتھ لے گئے لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی دوسرے سے کچھ نہ پوچھا یہاں تک کہ تیسرا دن ہو گیا۔
اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے دن کی طرح کیا اور یہ ان کے ساتھ چلے گئے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کیا تم مجھے بتاتے نہیں ہو کہ تم یہاں کس لئے آئے ہو؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ تم مجھے عہدو پیمان دو کہ تم مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ گے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ فرمایا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے آنے کا مقصد بتایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ بات حق ہے اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب صبح ہو تو میرے پیچھے چلنا۔ اگر میں ایسی کوئی چیز دیکھوں گا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو گا تو میں پیشاب کے بہانے رک جاؤں گا۔ (تم چلتے رہنا) اگر میں چلتا رہا تو میر ے پیچھے چلتے رہنا اور جس گھر میں میں داخل ہوں اس میں تم بھی داخل ہو جانا۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے چلتے رہے یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ اور یہ بھی ان کے ساتھ حاضر خدمت ہو گئے۔
انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور اسی جگہ مسلمان ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اپنی قوم کے پاس واپس چلے جاؤ اور انہیں ساری بات بتاؤ۔ (اور تم وہاں ہی رہو)
یہاں تک کہ میں تمہیں حکم بھیجوں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے میں اس کلمہ توحید کا کافرں کے بیچ میں پورے زور سے اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل کر مسجد حرام آئے اور بلند آواز سے پکار کر کہا:۔

۔” اَشھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ ﷲِ “۔

یہ سن کر مشرکین کھڑے ہوئے اوران کو اتنا مارا کہ ان کو لٹا دیا۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور وہ (ان کو بچانے کے لئے) ان پر لیٹ گئے اور انہوں نے کہا تمہارا ناس ہو کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ قبیلہ غفار کا آدمی ہے اور ملک شام کا تمہارا تجارتی راستہ اسی قبیلہ کے پاس سے گزرتا ہے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو کافروں سے چھڑالیا۔
اگلے دن حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے پھر ویسے ہی کیا۔
چنانچہ پھر کافروں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارا۔ اور پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ (بچانے کے لئے) ان پر لیٹ گئے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گیا۔ آپ نے مجھے اسلام سکھایا۔ اور میں نے کچھ قرآن بھی پڑھ لیا۔ پھر میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے دین کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔
آپ نے فرمایا مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہے کہ تم کو قتل کر دیا جائے گا۔ میں نے کہا چاہے مجھے قتل کر دیا جائے لیکن میں یہ کام ضرور کروں گا آپ خاموش ہو گئے۔
مسجد حرام میں قریش حلقے لگا کر بیٹھے ہوئے باتیں کرتے تھے میں نے وہاں جا کر زور سے کہا

۔”اَشھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ ﷲِ”۔

یہ سنتے ہی وہ تمام حلقے ٹوٹ گئے اور وہ لوگ کھڑے ہو کر مجھے مارنے لگے اور مجھے سرخ بت کی طرح بنا کر چھوڑا۔
اور ان کا یہ خیال تھا کہ وہ مجھے قتل کر چکے ہیں۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ نے میرا یہ حال دیکھ کر فرمایا کہ کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا۔
میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرے دل کی چاہت تھی جسے میں نے پورا کر لیا ہے۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہر گیا۔ پھر آپ نے فرمایا:۔
اپنی قوم میں چلے جاؤ۔ اور جب تمہیں ہمارے غلبہ کی خبر ملے تو پھر میرے پاس آ جانا۔ ایک روایت میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو وادی (مکہ) کے تمام لوگ مجھ پر ہڈیاں اور ڈھیلے لے کر ٹوٹ پڑے اور مجھے اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو کر گر گیا۔ جب مجھے ہوش آیا اور میں اٹھا تو میں نے دیکھا کہ میں پتھر کے سرخ بت کی طرح سے (لہولہان) ہوں۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 234 – 236

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments