حضرت ابوبکر کی خلافت پر صحابہ کا اتفاق

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امر خلافت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مقدم سمجھنا اور جس نے ان میں توڑ پیدا کرنا چاہا اسے رد کر دینا

حضرت ابو البختریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ تاکہ میں تم سے بیعت ہو جاؤں کیونکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس آدمی سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہوں جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) ہمارے امام بننے کا حکم دیا ہو اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تک ہماری امامت کی ہو۔ (اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں لہٰذا میں خلیفہ نہیں بن سکتا)۔ (واخرجہ احمد)

حضرت سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوفؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار توڑ دی۔
پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر لوگوں میں بیان فرمایا اور ان کے سامنے اپنا عذر پیش کیا اور فرمایا اللہ کی قسم! کسی دن یا کسی رات بھی یعنی زندگی بھر کبھی بھی میرے دل میں امارت کی تمنا پیدا نہیں ہوئی اور نہ اس کی خواہش ہوئی اورنہ میں نے کبھی اللہ سے امارت کو چھپ کر یا علی الاعلان مانگا۔ لیکن مجھے (مسلمانوں میں) فتنہ (پیدا ہو جانے) کا ڈر ہوا (کہ اگر میں امارت قبول نہ کرتا تو مسلمانوں میں جوڑ باقی نہ رہتا بلکہ ان میں توڑ پیدا ہو جاتا) اور میرے لئے امارت میں راحت کا کوئی سامان نہیں ہے اور ایک بہت بڑے امر (یعنی امر خلافت) کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی ہے جو میری قوت اور طاقت سے باہر ہے۔
ہاں اللہ تعالیٰ قوت عطا فرما دے (تو پھر وہ ذمہ داری ٹھیک طرح سے ادا ہو سکتی ہے) اور میں دل سے یہ چاہتا ہوں کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ قوی آدمی ہے وہ آج میری جگہ اس امارت پر آ جائے۔
حضرات مہاجرین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اس بات کو اور ان کے عذر کو قبول کر لیا۔ البتہ حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں تو صرف اس بات پر غصہ آیا تھا کہ ہمیں مشورہ میں شریک نہیں کیا گیا۔ ورنہ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں خلافت کے سب سے زیادہ حقدار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غار کے ساتھی ہیں اور (قرآن کے الفاظ کے مطابق) یہ ثَانِیَ اثنَیْنِ دو میں سے دوسرے ہیں۔ ہم ان کی شرافت اور بزرگی کو خوب پہچانتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں انہیں لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ (اخرجہ الحاکم 66/3 والبیہقی 152/8)

حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس (ان کے گھر) گئے۔
اور یوں کہا اے علی! اور اے عباس! (یہ بتاؤ کہ) یہ خلافت کا کام کیسے قریش کے سب سے زیادہ کم عزت اور سب سے زیادہ چھوٹے خاندان میں چلا گیا۔ اللہ کی قسم! اگر تم چاہو تو میں (ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف) سوار اور پیادہ لشکر سے سارا مدینہ بھردوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں۔ اللہ کی قسم! میں تو نہیں چاہتا کہ تم (ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف) سوار اورپیادہ لشکر سے سارا مدینہ بھر دو اور اے ابو سفیان! اگر ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم ہرگز ان کے لئے خلافت کو نہ چھوڑتے۔
بے شک مؤمن تو ایسے لوگ ہیں کہ سب ایک دوسرے کا بھلا چاہنے والے ہوتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کے وطن اور جسم دور ہوں اور منافقین ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کودھوکہ دینے والے ہوتے ہیں ۔ (اخرجہ ابن عساکر کذا فی الکنز 141/3)

حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت اُمّ خالد کہتی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوجانے کے بعد میرے والد یمن سے مدینہ آئے تو انہوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا اے بنو عبدمناف! کیا تم اس پر راضی ہو گئے ہو کہ دوسرے لوگ اس امر خلافت میں تمہارے والی بنیں؟
یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچائی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کوئی اثر نہیں لیا البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی اس بات سے اثر لے کر اسے دل میں بٹھا لیا۔ چنانچہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تین ماہ تک بیعت نہ کی۔
اس کے بعد ایک مرتبہ دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر ہوا حضرت خالد رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے گھر میں تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو سلام کیا۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ سے بیعت ہو جاؤں؟
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (اپنی طرف متوجہ نہ کیا بلکہ عام مسلمانوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے) کہا جس صلح میں تمام مسلمان داخل ہوئے ہیں میں چاہتا ہوں تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کہا آج شام کا آپ سے وعدہ ہے۔ میں آپ سے شام کو بیعت ہوجاؤں گا۔ چنانچہ شام کو حضرت خالد رضی اللہ عنہ آئے اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ ان سے بیعت ہو گئے۔ ان کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے اچھی تھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کی تعظیم کرتے تھے۔
چنانچہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شام کی طرف لشکر روانہ فرمانے لگے تو انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیر بنا کر انہیں امارت کا جھنڈا دے دیا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ وہ جھنڈا لے کر اپنے گھر گئے۔
۔(جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا پتہ چلا تو) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اس بارے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور کہا کہ آپ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو امیر بنا رہے ہیں حالانکہ انہوں نے ہی (آپ کے خلیفہ بننے کے خلاف) وہ بات کہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی بات کہتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (ان کی رائے کو قبول کر لیا اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو امارت سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لئے) حضرت ابو اروی دوسی کو (حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ آپ سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارا (امارت والا) جھنڈا ہمیں واپس کر دو۔
چنانچہ انہوں نے وہ جھنڈا نکال کر حضرت ابو اروی کو دے دیا اور کہا کہ نہ تمہارے امیر بنانے سے ہمیں کوئی خوشی ہوئی تھی اورنہ اب تمہارے معزول کرنے سے ہمیں کوئی رنج و صدمہ ہوا ہے اور قابل ملامت تو آپ کے علاوہ کوئی اور ہے (یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشار ہ ہے) حضرت اُم خالد کہتی ہیں کہ ابھی کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس آ کر ان سے معذرت کرنے لگے اور وہ انہیں قسم دے کر کہہ رہے تھے کہ وہ کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا برائی سے تذکرہ نہ کریں۔ چنانچہ میرے والد مرتے دم تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے خیر کرتے رہے۔ (اخرجہ ابن سعد 97/4)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے والد سواری پر سوار ہو کر تلوار سونتے ہوئے ذی القصہ مقام کی طرف نکلے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آ کر ان کی سواری کی لگام پکڑی اور کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ! آپ کہاں جا رہے ہیں؟
میں آج آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے دن آپ کو فرمائی تھی کہ آپ اپنی تلوار کو میان میں رکھ لیں اور آپ (زخمی یا شہید ہو کر) ہمیں اپنے بارے میں پریشان نہ کریں۔
کیونکہ اللہ کی قسم! اگر ہمیں آپ (کی موت) کا صدمہ پہنچا تو پھر آپ کے بعد کبھی بھی اسلام کا نظام باقی نہیں رہ سکے گا۔ چنانچہ میرے والد خود واپس آ گئے اور لشکر کو روانہ کر دیا۔ (اخرجہ الساجی کذا فی الکنز 143/3)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 453 – 455

Written by Huzaifa Ishaq

26 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments