حسد کا تعارف اور اس سے بچاؤ

مسنون زندگی قدم بہ قدم

حسد کا تعارف اور اس سے بچاؤ

حسد اس تاثر کا نام ہے جس میں انسان کسی دوسرے شخص کے پاس موجود شے کے بارے میں یہ تمنا کرتا ہے کہ بجائے اس شخص کے وہ چیز میرے پاس چلی آئے، کوئی شخص کسی بڑے سرمایہ کا مالک ہوتا ہے، انسان اس تمنا پر حسد کرتا ہے کہ وہ سرمایہ میرے پاس آجائے، قرآن کریم میں اس قسم کے حسد کا ذکر ملتا ہے کہ جب قارون اپنے ساز و سامان کے ساتھ قوم کے سامنے نکلا تو کچھ لوگ اس پر حسد کرتے ہوئے تمنا کرنے لگے کہ قارون کی دولت و سامان اس کے پاس بھی ہو۔

۔‘‘فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ ط قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنَّہٗ لَذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ’’ (قصص:79)
ترجمہ:۔ (ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پورے ٹھاٹھ سے نکلا جو لوگ حیات دُنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے “کاش” ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا، یہ تو بڑا نصیب والا ہے)۔

اس نوع کا حسد بہت سارے لوگوں میں پایا جاتا ہے، بہت سارے لوگ دوسروں پر حسد اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں دولت، اولاد، صحت یا کامیابی سے نوازا ہوتا ہے، قرآن بتاتا ہے کہ یہود مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حسد کیا کہ انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا اور مؤمنوں پر انہوں نے حسد کیا، جنہیں اللہ نے ایمان و ہدایت سے آراستہ کیا تھا۔

۔‘‘مَا یَوَدُّالَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ ےَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ’’ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ:۔ ‘‘یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو مگر اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔’’۔

۔‘‘اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآاٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا’’ (نساء:۵۲)
ترجمہ:۔ ‘‘پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا’’۔

۔‘‘وَدَّکَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ م بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا۔ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ’’ (بقرہ)
ترجمہ:۔ ‘‘اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں، اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے۔
مگر اپنے نفس کے حسد کی بناء پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے کہ اس کے جواب میں تم عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کردے، مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے’’۔

حسد بسا اوقات بھائیوں کے اندر بھی ہوتا ہے، ایک بھائی دوسرے بھائی پر اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کی وجہ سے حسد کرنے لگتا ہے، اسی حسد کے خوف سے حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے سامنے اپنا خواب بیان کرنے سے منع فرمایا تھا کہ حسد کی وجہ سے بھائیوں کی جانب سے ایذاء کا اندیشہ تھا۔

۔‘‘قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْ یَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ’’ (یوسف:۵)
ترجمہ:۔
‘‘جواب میں اس کے باپ نے کہا، بیٹا! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔’’

روئے زمین پر پہلا حسد قابیل نے اپنے بھائی ہابیل سے کیا تھا کہ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی تھی اور قابیل کی قربانی قبول نہیں کی تھی جس کی وجہ سے قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا۔

وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ قَالَ لَاَ قْتُلَنَّکَ ط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (مائدہ:۲۷)
ترجمہ:۔
‘‘اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو، جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا، میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا، اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔’’۔

حسد بھی کینہ و ناپسندیدگی پیدا کرتا ہے اور محسود کو ایذاء پہنچنے کی تمنا پر آمادہ کرتا ہے، بسا اوقات وہ محسود پر ظلم و زیادتی کر جانے پر بھی آمادہ کردیتا ہے، قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا، بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گہرے پانی میں ڈال دیا۔ چونکہ حسد ناپسندیدگی ظلم اور ایذاء رسانی پر آمادہ کردیتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حاسدین کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے۔

۔‘‘وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ’’ (فلق:۵) …۔
ترجمہ:۔
‘‘اور حاسد کے شر سے (پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ حسد کرے۔’’ (بحوالہ قرآن کریم اور علم النفس)

حسد اور اس سے نجات کی صورت

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کینہ اور حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ عبدالرحمن بن معاویہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
ظن، حسد اور بدفالی۔ عرض کیا یارسول اللہ! ان سے نجات کی کیا صورت ہے؟ ارشاد فرمایا: جب تو حسد کرے تو ظاہر مت کر کیونکہ صرف دل کے خیال پر مواخذہ نہیں اور جب کسی کے متعلق بدگمانی ہو تو بلاتحقیق اسے حقیقت مت سمجھو۔
اگر بدفالی کی صورت پیش آئے تو پروا کیے بغیر کام میں لگے رہو۔ یعنی کہیں جانے کا ارادہ تھا کہ اُلو کی آواز سن لی یا کسی اور جانور یا بدن کے اعضاء میں سے کسی میں لرزہ پیدا ہوگیا تو اس وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل نہ کرو بلکہ اپنے عزم پر جاری رہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی فال کو پسند فرماتے اور بدفالی پکڑنے کو ناپسند سمجھتے اور فرمایا کرتے کہ بدفالی پکڑنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:۔
۔‘‘وہ لوگ کہنے لگے ہم تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔’’۔
ایک اور آیت ہے:‘‘اور وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔’’۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب تو کسی پرندے کی آواز سنے تو کہا کر اے اللہ! یہ پرندہ بھی تیرا ہی ہے اور خیر و برکت بھی تیری ہی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ برائی سے بچنے کی ہمت اور نیکی کرنے کی قوت بھی تیری ہی عطا سے ہے۔ پھر آگے چل دو۔ ان شاء اللہ کچھ بھی ضرر اور نقصان نہ ہوگا۔ (از تنبیہ الغافلین)

حسد اور کینہ سے بچنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے

فقیہ رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو میں آٹھ برس کا تھا۔ آپ نے سب سے پہلی بات مجھے یہ سکھائی اور فرمایا ۔
اے انس! اپنا وضو درست کرو جیساکہ نماز کے لیے مناسب ہے، تیرے محافظ فرشتے تجھ سے محبت کریں گے اور عمر میں زیادتی ہوگی۔ اے انس! جنابت کی حالت ہو جائے تو خوب اچھی طرح سے غسل کرو کہ ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتا ہے۔
عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! غسل میں مبالغہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
ارشاد فرمایا کہ بالوں کی جڑوں کو تر کرو اور بدن کو مل کر صاف کرو۔ اس کے بعد تو جب غسل خانے سے نکلے گا تو گناہوں سے بھی پاک ہو چکا ہوگا۔
اے انس! تیری چاشت کی دو رکعتیں کبھی قضا نہ ہونی چاہئیں کہ یہ (اوّابین) اللہ والوں کی نماز ہے، دن اور رات میں نوافل بکثرت ادا کیا کر کہ جب تک نماز میں رہو گے فرشتے تیرے لیے دُعا کرتے رہیں گے۔
اے انس! جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو اپنے آپ کو اللہ کے سامنے پیش کر، رکوع کرے تو دونوں ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھو اور انگلیاں کھلی رہیں اور بازو پہلوؤں سے ہٹے ہوئے ہوں اور جب رکوع سے سر اُٹھاؤ تو سیدھے کھڑے ہو جاؤ کہ ہر عضو اپنے ٹھکانے پر آجائے، سجدہ کرو تو چہرہ زمین پر رکھو، کوے کی طرح ٹھونگے مت مارو اور نہ لومڑی کی طرح اپنے بازو زمین پر پھیلاؤ اور سجدہ سے سر اُٹھاؤ تو کتے کی طرح مت بیٹھو یعنی زمین پر سرین رکھ کر گھٹنے کھڑے کرلو بلکہ سرین کو دونوں قدموں کے درمیان رکھو اور قدموں کے ظاہری حصے کو زمین پر لگاؤ۔ اللہ تعالیٰ ایسی نماز کی طرف التفات نہیں فرماتے جس کا رکوع سجود مکمل نہ ہوں۔
اگر ہوسکے تو ہر وقت باوضو رہا کرو کہ اگر اسی حالت میں موت آجائے تو شہادت نصیب ہوگی۔ اے انس! گھر میں داخل ہوتے وقت اہل خانہ پر سلام کہا کرو۔ اس سے تجھے اور تیرے گھر والوں کو کثیر برکت حاصل ہوگی۔ کسی کام کے لیے گھر سے نکلو تو جس مسلمان پر بھی نظر پڑے تو اس کو سلام کہو اس سے ایمان کی لذت دل میں پیدا ہوگی اور باہر پھرتے پھراتے کوئی گناہ یا قصور ہو جائے تو اس کی بھی تلافی ہوجائے گی۔
اے انس! کوئی رات اور صبح ایسی حالت میں مت گزار کہ تیرے دل میں کسی مسلمان کے متعلق بغض اور کینہ موجود ہو۔ یہ میری سنت ہے جس نے میری سنت کو اپنایا اس نے میرے ساتھ محبت کی اور میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
اے انس! جب تو میری ان نصیحتوں کو یاد کرے گا اور اس پر عمل پیرا ہوگا تو موت سے بڑھ کر کوئی چیز تجھے محبوب نہیں ہوگی کہ اسی میں تیرے لیے راحت و احترام ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کینہ اور کھوٹ کو دل سے نکالنا میری سنت ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے دل کو حسد و کینہ سے پاک و صاف کرے کیوں کہ یہ بہترین اعمال میں سے ہے۔

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 420 تا 424

Written by Huzaifa Ishaq

16 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments