حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کا واقعہ

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کا واقعہ
حضرت جعفر بن ابی طالب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا پہلے حبشہ، پھر مدینہ ہجرت کرنا

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سرزمین مکہ (مسلمانوں پر) تنگ ہو گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح ستایا گیا اور ان کو بڑی آزمائشوں میں ڈالا گیا اور انہو ں نے دیکھا کہ دین کی وجہ سے ان پر آزمائش اور مصیبتیں آ رہی ہیں اور یہ بھی دیکھ لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان آزمائشوں اور مصیبتوں سے بچا نہیں سکتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم اور اپنے چچا کی وجہ سے حفاظت میں ہیں جس کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ناگوار بات پیش نہیں آتی ہے۔
اور نہ آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہم والی تکلیفیں پہنچتی ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ملک حبشہ میں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ہے۔
لہٰذا تم اس کے ملک میں چلے جاؤ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس تنگی سے نجات دے اور جن مصیبتوں میں تم مبتلا ہو ان سے نکلنے کا راستہ بنا دے۔
چنانچہ ہم لوگ جماعتیں بن بن کر حبشہ جانے لگے اور وہاں جا کر ہم اکٹھے ہو گئے اور وہاں رہنے لگے۔ بڑا اچھا علاقہ تھا وہاں کے لوگ بہترین پڑوسی تھے۔
ہم اطمینان سے اپنے دین پر چلنے لگے۔ وہاں ہمیں کسی قسم کے ظلم کا اندیشہ نہ تھا۔ جب قریش نے یہ دیکھا کہ ہمیں رہنے کو ایک علاقہ مل گیا ہے جہاں ہم امن سے رہ رہے ہیں۔ تو انہیں یہ بہت برا لگا اور انہیں ہم پر بڑا غصہ آیا اور انہوں نے جمع ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہمارے بارے میں نجاشی کے پاس ایک وفد بھیجیں گے جو ہمیں نجاشی کے ملک سے نکال کر ان کے پاس (مکہ) واپس لے آئے۔
چنانچہ انہوں نے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو بطور وفد بھیجنا طے کیا۔ اور نجاشی اور اس کے جرنیلوں کے لئے بہت سے تحفے جمع کئے اور ان میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ تحفہ تیار کیا۔ اور ان دونوں سے کہا کہ صحابہ کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہر جرنیل کو اس کا تحفہ دے دینا۔
پھر نجاشی کو اس کے تحفے دینا اور کوشش کرنا کہ صحابہ سے نجاشی کی بات ہونے نہ پائے اور پہلے ہی وہ ان کو تمہارے حوالے کر دے۔ چنانچہ وہ دونوں حبشہ نجاشی کے ہاں گئے اور ہر جرنیل کو اس کا تحفہ پیش کیا۔ پھر انہو ں نے ہر جرنیل سے یہ بات کی کہ ہم اپنے چند بے وقوفوں کی وجہ سے اس بادشاہ کے پاس آئے ہیں ۔
یہ بے وقوف اپنی قوم کا دین چھوڑ چکے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں تو ان کی قوم نے ہمیں اس لئے بھیجا ہے تاکہ بادشاہ ان لوگوں کو ان کی قوم کے پاس واپس بھجوا دے۔ جب ہم بادشاہ سے یہ بات کریں تو تم سب ایسا کرنے کا (یعنی واپس بھیجنے کا) مشورہ دینا۔ سب نے کہا ہم ایسا ہی کریں گے۔ پھر انہوں نے جا کر نجاشی کو تحفے پیش کئے۔
اور مکہ والوں نے اسے جو تحفے بھیجے تھے ان میں سے اسے سب سے زیادہ پسند رنگی ہوئی کھال تھی۔ جب وہ اسے تحفے دے چکے تو انہوں نے نجاشی سے کہا کہ اے بادشاہ، ہمارے چند بے وقوف نوجوانوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں اور ایک نیا گھڑا ہوا دین انہوں نے اختیار کیا ہے جسے ہم نہیں جانتے ہیں۔
اور اب انہوں نے تمہارے ملک میں آ کر پناہ لے لی ہے۔ اور آپ کی خدمت میں ان کے بارے میں بات کرنے کے لئے ان کے خاندان، ان کے والدین، ان کے چچا اور ان کی قوم نے ہم لوگوں کو بھیجا ہے تاکہ ان کو ان کی قوم کے پاس واپس بھیج دیں کیونکہ ان کی قوم والے ان کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں اور یہ لوگ آپ کے دین میں کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے کہ آپ اس وجہ سے ان کی حمایت اور حفاظت کریں۔ (یہ سن کر) نجاشی کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا اللہ کی قسم! نہیں ایسے نہیں ہو سکتا۔
اور جب تک میں انہیں واپس نہیں کر سکتا ہوں (کیونکہ) انہوں نے میرے ملک میں آ کر پناہ لی ہے اور کسی اور کا پڑوس اختیار کرنے کی بجائے انہوں نے میرا پڑوس اختیار کیا ہے۔
اگر وہ ایسے یہ نکلے جیسے ان کی قوم والے کہہ رہے ہیں تو میں انہیں ان کی قوم کے پاس واپس بھیج دوں گا اور اگر وہ ویسے نہ ہوئے تو میں ان کی ہر طرح حفاظت کروں گا اور ان کے اور ان کی قوم کے درمیان نہیں پڑوں گا۔ اور (ان کو واپس بھیج کر) ان کی قوم کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں کروں گا۔
۔(چنانچہ نجاشی نے مسلمانوں کو بلا لیا) جب مسلمان اس کے پاس آئے تو انہوں نے اسے سلام کیا اور سجدہ نہ کیا تو اس نے کہا اے جماعت (مہاجرین) تم لوگ مجھے یہ بتاؤ کہ جس طرح تمہاری قوم کے آدمیوں نے آ کر (سجدہ کر کے) مجھے سلام کیا تم لوگوں نے اس طرح مجھے سلام نہیں کیا اور یہ بھی بتاؤ کہ تم حضرت عیسیٰ ؑکے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اور تمہارا دین کیا ہے؟ کیا تم عیسائی ہو؟ مسلمانوں نے کہا نہیں۔
نجاشی نے کہا کیا تم یہودی ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔
اس نے کہا کیا تم اپنی قوم کے دین پر ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔
اس نے کہا پھر تمہارا دین کیا ہے؟ انہوں نے کہا اسلام۔
اس نے کہا اسلام کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے ہیں۔ اس نے کہا یہ دین تمہارے پاس کون لایا؟ انہوں نے کہا یہ دین ہمارے پاس ہم میں کا ہی ایک آدمی لے کر آیا ہے جسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں اس کے حسب نسب سے ہم خوب واقف ہیں۔ انہیں اللہ نے ہماری طرف ایسے ہی بھیجا ہے جیسے اللہ نے اور رسولوں کو ہم سے پہلوں کی طرف بھیجا۔ انہوں نے ہمیں نیکی اور صدقہ کرنے کا، وعدہ پورا کرنے ، امانت ادا کرنے کا حکم دیا، بتوں کی عبادت سے انہوں نے ہمیں روکا اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کا ہمیں حکم دیا۔
ہم نے انہیں سچا مان لیا اور اللہ کے کلام کو پہچان لیا، ہمیں یقین ہے کہ وہ جو کچھ لائے ہیں وہ سب اللہ کے پاس سے آیا ہے۔ ہمارے ان کاموں کی وجہ سے ہماری قوم ہماری دشمن ہو گئی اور اس سچے نبی کی بھی دشمن بن گئی اور انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کو قتل کرنا چاہا۔ اور ہم سے بتوں کی عبادت کروانا چاہتے ہیں۔
ہم اپنے دین اور اپنی جان کو لے کر اپنی قوم سے بھاگ کر آپ کے پاس آئے ہیں۔ نجاشی نے کہا اللہ کی قسم! یہ بھی اسی نور سے نکلا ہے جس سے موسیٰ ؑکا دین نکلا تھا۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، باقی رہی سلام کرنے کی بات، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ جنت والوں کا سلام ‘‘ السلام علیکم’’ ہے آپ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ہم نے آپ کو ویسے ہی سلام کیا جیسے ہم آپس میں کرتے ہیں۔ جہاں تک حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کا تعلق ہے تو وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ اللہ کا وہ کلمہ ہیں جس کو اللہ نے مریم کی طرف القاء فرمایا تھا اور اللہ کی (پیدا کی ہوئی) روح ہیں اور وہ اس کنواری عورت کے بیٹے ہیں جو الگ تھلگ رہنے والی تھی۔
نجاشی نے ایک تنکا اٹھا کر کہا۔ اللہ کی قسم! تم نے جو کچھ بتایا ہے حضرت عیسیٰ ؑاس سے اتنے بھی (یعنی اس تنکے کے برابر بھی) زیادہ نہیں ہیں۔ یہ سن کر حبشہ کے معزز سرداروں نے کہا اللہ کی قسم! اگر حبشہ کے لوگوں نے (تمہاری اس بات کو) سن لیا تو وہ تمہیں (بادشاہت سے) ہٹا دیں گے اس نے کہا اللہ کی قسم! میں حضرت عیسیٰ ؑکے بارے میں کبھی بھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہوں گا۔
جب اللہ نے میرا ملک مجھے واپس کیا تھا تو اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات نہیں مانی تھی تو اب میں اللہ کے دین کے بارے میں ان لوگوں کی بات کیوں مانوں۔ ایسے کام سے اللہ کی پناہ۔ (اخرجہ ابن اسحاق کذا فی البدایۃ 72/3)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی کے ہاں بھیجا۔ ہم تقریباً اَسی مرد تھے۔ جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جعفر، حضرت عبداللہ بن عرفطہ، حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ یہ حضرات نجاشی کے ہاں پہنچ گئے۔
قریش نے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو تحفے دے کر بھیجا۔ جب یہ دونوں نجاشی کے دربار میں پہنچے تو دونوں نے اسے سجدہ کیا۔ اور پھر جلدی سے بڑھ کر اس کے دائیں بائیں بیٹھ گئے اور اس سے کہا کہ ہمارے کچھ چچا زاد بھائی ہمیں اور ہمارے دین کو چھوڑ کر تمہارے ملک میں آگئے ہیں۔ نجاشی نے کہا وہ کہاں ہیں؟ دونوں نے کہا وہ یہاں تمہارے ملک میں ‘‘فلاں جگہ’’ ہیں، آدمی بھیج کر ان کو بلالو۔
چنانچہ نجاشی نے مسلمانوں کے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا آج میں تمہاری طرف سے (بادشاہ کے سامنے) بات کروں گا۔ چنانچہ سارے مسلمان حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل پڑے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے (دربار میں پہنچ کر) سلام کیا اور سجدہ نہیں کیا۔ لوگوں نے ان سے کہا۔
تمہیں کیا ہوا، تم بادشاہ کو سجدہ نہیں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم صرف اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اس کے علاوہ کسی کو نہیں کرتے۔ نجاشی نے کہا یہ کیا بات ہے؟ حضرت جعفر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک رسول بھیجا جس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ نہ کریں اور اس نے ہمیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم بھی دیا۔
عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا یہ لوگ حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے بارے میں آپ کے مخالف ہیں۔ تو نجاشی نے (حضرت جعفر سے)کہا تم لوگ حضرت عیسیٰ بن مریم اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ حضرت جعفر نے کہا ہم بھی وہی کہتے ہیں جو ان کے بارے میں اللہ نے کہا ہے۔ وہ اللہ کی (پیدا کردہ) روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کنواری اور مردوں سے الگ تھلگ رہنے والی عورت کی طرف القاء فرمایا تھا جن کو کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا۔
اور نہ (حضرت عیسیٰ کی ولادت سے) ان کا کنوارہ پن ختم ہوا۔ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا اے حبشہ والو! اے عیسائی مذہب کے علماء اور پادریوں! اے رہبانیت اختیار کرنے والو! ہم حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں جو کہتے ہیں یہ مسلمان اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں کہتے ہیں (اور پھر مسلمانوں سے نجاشی نے کہا) خوش آمدید ہو تمہیں اور اس ذات اقدس کو، جس کے پاس سے تم آئے ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ وہی ہیں جن کا تذکرہ ہم انجیل میں پاتے ہیں اور یہ وہی رسول ہیں جن کی حضرت عیسیٰ بن مریمؑ نے بشارت دی تھی ۔ تم (میرے ملک میں) جہاں چاہو رہو۔
اللہ کی قسم اگر بادشاہت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر خود ان کے دونوں جوتے اٹھاتا۔ اور پھر نجاشی نے حکم دیا تو (قریش کے) ان دونوں (قاصدوں) کے تحفے واپس کر دئیے گئے ، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود جلدی سے (مدینہ) گئے۔ یہاں تک کہ بدر میں شریک ہو گئے۔ (اخرجہ امام احمد)
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قریش نے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو ابو سفیان کی طرف سے تحفہ دے کر نجاشی کے پاس بھیجا اور ہم لوگ ان دنوں نجاشی کے ملک میں تھے۔ انہوں نے نجاشی سے کہا کہ ہمارے کچھ گھٹیا اور بے وقوف لوگ آپ کے ہاں آ گئے۔ وہ آپ ہمیں دے دیں۔
نجاشی نے کہا جب تک میں ان کی بات سن نہ لوں ان کو تمہارے حوالہ نہیں کر سکتا ہوں۔ چنانچہ آدمی بھیج کر ہمیں بلایا۔ (ہم لوگ اس کے دربار میں آئے) تو اس نے ہم سے کہا یہ لوگ(عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید) کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم نے کہا یہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک رسول بھیجا ہم اس پر ایمان لے آئے اور اس کی تصدیق کی نجاشی نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ تمہارے غلام ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔
پھر اس نے کہا کیا ان پر تمہارا کچھ قرضہ ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔
تو نجاشی نے کہا تم لوگ ان کا راستہ چھوڑ دو۔ چنانچہ ہم نجاشی کے دربار سے باہر آ گئے، تو عمرو بن عاص نے کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں تم جو کہتے ہو یہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور کہتے ہیں۔
نجاشی نے کہا اگر انہو ں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ نہ کہا جو میں کہتا ہوں تو میں ان کو اپنے ملک میں ایک منٹ رہنے نہیں دوں گا اور اس نے ہمارے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجا۔
یہ اس کا دوبارہ بلانا ہمارے لئے پہلی دفعہ کے بلانے کی نسبت زیادہ پریشانی کا سبب بنا۔ (ہم دوبارہ اس کے پاس گئے) اس نے کہا تمہارے حضرت، حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
ہم نے کہا وہ کہتے ہیں کہ وہ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ اللہ (کی پیدا کردہ) روح ہیں اور وہ اللہ کا وہ کلمہ ہیں جس کوا للہ تعالیٰ نے کنواری اور مردوں سے الگ تھلگ رہنے والی عورت (یعنی حضرت مریم علیہا السلام) کی طرف القاء فرمایا تھا۔
حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ نجاشی نے قاصد بھیج کر کہا کہ فلاں فلاں بڑے پادری اور فلاں فلاں راہب کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ نجاشی کے پاس آ گئے۔ نجاشی نے ان (پادریوں اور راہبوں) سے کہا تم لوگ حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا آپ ہم میں سب سے بڑے عالم ہیں۔
آپ کیا کہتے ہو؟
انہوں نے زمین سے کوئی چھوٹی سی چیز اٹھا کر کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان مسلمانوں نے جو کچھ کہا ہے حضرت عیسیٰ اس سے اس چھوٹی سی چیز کے برابر بھی بڑھے ہوئے نہیں ہیں۔
پھر نجاشی نے (مسلمانوں سے)کہا کیا تمہیں کوئی تکلیف پہنچاتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ (چنانچہ نجاشی کے کہنے پر اس کے)منادی نے یہ اعلان کیا کہ جو ان (مسلمانوں) میں سے کسی کو تکلیف پہنچائے اسے چار درہم کا جرمانہ کر دو۔
پھر نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ اتنا جرمانہ تمہیں کافی ہے؟ ہم نے کہا نہیں۔ چنانچہ اس نے وہ جرمانہ دوگنا یعنی آٹھ درہم کر دیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور آپ کا وہاں غلبہ ہو گیا تو ہم نے نجاشی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے ہیں اور ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے ہیں۔
اور جن کافروں کے (ستانے کے) بارے میں ہم آپ کو بتایا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو قتل کر دیا ہے۔ اس لئے ہم اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہیں۔
آپ ہمیں واپس جانے کی اجازت دے دیں۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ اس نے ہمیں سواریاں بھی دیں اور زاد سفر بھی۔ پھر کہا کہ اپنے حضرت کو وہ سب کچھ بتا دینا جو میں نے آپ لوگوں کے ساتھ کیا ہے اور یہ میرا نمائندہ تمہارے ساتھ جائے گا اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان کی خدمت میں عرض کرنا کہ وہ میرے لئے دعائے مغفرت کریں۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم وہاں سے چلے پھر مدینہ پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا استقبال کیا اور مجھے اپنے گلے لگا لیا اور فرمایا میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے واپس آنے کی؟ اور حضرت جعفر کی واپسی فتح خیبر کے موقع پر ہوئی تھی۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو نجاشی کے قاصد نے کہا یہ حضرت جعفر ہیں آپ ان سے پوچھ لیں کہ ہمارے بادشاہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ تو حضرت جعفر نے کہا جی ہاں، اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یہ کیا واپسی پر ہمیں سواریاں دیں اور زاد سفر بھی اور اس نے کلمہ شہادت بھی پڑھا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنا کہ وہ میرے لئے دعائے مغفرت کریں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر وضو فرمایا اور پھر تین مرتبہ یہ دعا فرمائی اَللّٰھُمَّ اغفِر لِلنَّجَاشی اے اللہ نجاشی کو مغفرت عطا فرما۔ تمام مسلمانوں نے اس دعا پر آمین کہی۔ پھر حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ میں نے اس قاصد سے کہا کہ تم واپس جاؤ اور تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ اپنے بادشاہ کو بتا دینا۔ (اخرجہ ابن عساکر)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ یمن میں تھے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے کی خبر ملی چنانچہ میں اور میرے دو بھائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کے ارادے سے چلے۔ میں سب میں چھوٹا تھا۔ ان میں سے ایک حضرت ابو بردہ اور دوسرے حضرت ابورہم تھے۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ نے یا تو یہ فرمایا کہ ہم اپنی قوم کے پچاس سے کچھ اوپر آدمیوں میں تھے یا یہ فرمایا کہ ہم تریپن آدمیوں میں تھے یا یہ فرمایا کہ ہم باون آدمیوں میں تھے۔ ہ
م ایک کشتی پر سوار ہوئے اس کشتی نے ہمیں نجاشی کے پاس حبشہ پہنچا دیا۔ وہاں ہمیں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ملے ہم ان کے ساتھ وہاں ٹھہر گئے۔
یہاں تک کہ ہم اکٹھے ہی مدینہ آئے۔ جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ خیبر فتح فرما چکے تھے۔ ہم کشتی والوں کوبہت سے لوگ کہا کرتے تھے کہ ہم ہجرت میں تم سے آگے نکل گئے۔
۔(یعنی ہم ہجرت کر کے پہلے مدینہ آئے تم مدینہ بہت دیر سے پہنچے) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہما بھی ہمارے ساتھ آنے والوں میں سے تھیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ملنے گئیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ گئی تھیں۔
اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا وہاں ہی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ حضرت عمر نے کہا یہ وہی حبشہ والی ہے؟
یہ وہی سمندر کا سفر کرنے والی ہے؟
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا جی ہاں وہی ہے۔ حضرت عمر نے کہا ہم ہجرت میں تم سے آگے نکل گئے۔ لہٰذا ہم تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقدار ہیں۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو غصہ آ گیا، کہنے لگیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم آپ لوگ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ لوگوں میں سے جسے بھوک لگتی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھلاتے اور جسے نہ آتا اسے آپ سکھا دیتے۔ ہم لوگ حبشہ میں ایسی سر زمین میں تھے جہاں کے لوگ دین سے دور اور دین سے بغض رکھنے والے تھے اور ہمیں یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برداشت کرنا پڑا۔
اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گی اور نہ کچھ پیوں گی جب تک تم نے جو کچھ کہا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کر پوچھ نہ لوں اور اللہ کی قسم! نہ میں جھوٹ بولوں گی اور نہ میں ادھر ادھر کی باتیں کروں گی اور نہ میں اپنی طرف سے بات بڑھاؤں گی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا نبی اللہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے اور ایسے کہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم نے ان کو کیا جواب دیا؟
میں نے کہا کہ جواب میں میں نے یہ اور یہ کہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تم سے زیادہ میرے حقدار نہیں ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی دو ہجرتیں ہیں۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ حضرت ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو میں نے دیکھا ہے وہ جماعتیں بن بن کر میرے پاس آتے اور مجھ سے یہ حدیث نبوی پوچھتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں جو یہ فضیلت ارشاد فرمائی تھی ان کو اس سے زیادہ نہ کسی چیز سے خوشی تھی اور نہ ان کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی چیز بڑی تھی۔ حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ کو دیکھا کہ وہ (خوشی کی وجہ سے) بار بار مجھ سے یہ حدیث سنتے۔
حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشعری ساتھی جب رات کو قرآن پڑھتے ہیں تو میں ان کو آواز سے پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سن کر ان کی قیام گاہوں کو معلوم کر لیتا ہوں۔ چاہے میں نے دن میں ان کی قیام گاہیں نہ دیکھی ہوں کہ کہاں ہیں؟
ان اشعری ساتھیوں میں سے حضرت حکیم بھی ہیں یہ (اتنے بہادر تھے کہ) جب ان کا دشمن سے سامنا ہوتا (اور وہ بھاگنا چاہتے) تو (لڑنے پر آمادہ کرنے کے لئے) ان سے کہتے کہ میرے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ تم ان کا انتظار کر لو (ابھی مت جاؤ) یا مسلمانوں کے شہسواروں سے کہتے کہ میرے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ تم ان کا انتظار کرو (اکٹھے مل کر دشمن پر حملہ کریں گے)۔ (اخرجہ البخاری وھکذا رواہ مسلم کذا فی البدایۃ 205/4)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 273 – 280

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments