انصاریوں کو دین کی دعوت

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

انصاریوں کو دین کی دعوت
حضرات انصار رضی اللہ عنہم کی نصرت دین کی ابتداء

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں موسم حج میں اپنے آپ کو عرب کے ایک ایک قبیلہ پر پیش فرماتے لیکن کوئی بھی آپ کی بات نہ مانتا۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انصار کے اس قبیلہ کو (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) لے آئے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت اور شرافت ان کے لئے مقدر فرما رکھی تھی ۔
چنانچہ ان لوگوں نے آپ کو ٹھکانہ دیا اور آپ کی نصرت کی ۔
اللہ تعالیٰ ہی ان کو اپنے نبی کی طرف سے بہترین جزاء عطا فرمائے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں موسم حج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو لوگوں پر پیش فرماتے تھے۔ اور ان سے کہتے تھے، ہے کوئی ایسا آدمی جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟
کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ہمدان قبیلہ کا ایک آدمی آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا تم کون سے قبیلہ کے ہو؟
اس نے کہا ہمدان کا۔ آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم کے پاس حفاظت کا انتظام ہے؟
اس نے کہا جی ہاں۔ پھر اس آدمی کو یہ خطرہ ہوا کہ (وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ساتھ لے جانے کا اور ان کی حفاظت کا وعدہ کر لے اور) قوم والے اس کے اس وعدہ کو نہ مانیں۔
چنانچہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر کہا کہ میں ابھی تو جا کر اپنی قوم کو بتاؤں گا اور اگلے سال آپ کے پاس آؤں گا(پھر آپ کو بتاؤں گا) آپ نے فرمایا۔
اچھا اور انصار کا وفد رجب میں آیا۔
حضرت عروہؒ فرماتے ہیں کہ جب حج کا زمانہ آیا تو انصار کے کچھ لوگ حج کے لئے گئے۔ چنانچہ بنو مازن بن نجار کے حضرت معاذ بن عفراء اور حضرت اسعد بن زرارہ اور بنوزریق کے حضرت رافع بن مالک اور حضرت ذکوان بن عبدالقیس اور بن عبدالاشہل کے ابوالہیثم بن تیہان اور بنو عمر بن عوف کے حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہما حج کے لئے گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور شرافت سے نوازا ہے اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔
جب انہوں نے آپ کی بات سنی تو سب خاموش ہو گئے اور ان کے دل آپ کی دعوت پر مطمئن ہو گئے اور چونکہ انہوں نے اہل کتاب سے آپ کے اوصاف جمیلہ اور آپ کی دعوت کے بارے میں سن رکھا تھا اس لئے وہ سنتے ہی آپ کو پہچان گئے او ر اآپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے اور یہ حضرات خیر کے عام ہونے کا ذریعہ بنے۔
پھر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہاں اوس اور خزرج میں قتل وغارت کا سلسلہ چل رہا ہے اور ہم اس چیز کو پسند کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ آپ کے کام کو صحیح رخ پر لے آئے(یعنی ہم آپ کو اپنے ہاں لے جانا اور آپ کی نصرت کرنا چاہتے ہیں) اور ہم اللہ کے لئے اور آپ کے لئے ہر طرح کی محنت کرنے کو تیار ہیں۔
اور جو آپ کی رائے ہے ہم بھی آپ کو اسی کا مشورہ دیتے ہیں لیکن ابھی آپ اللہ کے بھروسہ پر (یہاں مکہ میں ہی) ٹھہرے رہیں۔اتنے میں ہم اپنی قوم کے پاس واپس جا کر ان کو آپ کی بات بتائیں گے اور ان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیں گے۔
ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ہماری آپس میں صلح کرادے اور ہمارا آپس میں جوڑ پیدا کر دے کیونکہ آج کل ہم ایک دوسرے سے دور ہیں اور ہماری آپس میں بغض و عداوت ہے۔ اگر آج آپ ہمارے ہاں تشرتف لے آتے ہیں اور ابھی ہماری آپس میں صلح نہ ہوئی ہو تو ہم سب آپ پر جڑ نہیں سکیں گے اور ایک جماعت نہیں بن سکیں گے۔
ہم اگلے سال حج (کے زمانے میں آپ سے ملنے) کا وعدہ کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ بات پسند آئی۔ اور وہ حضرات اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور اپنی قوم کو چپکے چپکے دعوت دینے لگے۔
اور ان کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دی اور اللہ تعالیٰ نے اپنا جو پیغام دے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اور قرآن سنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی دعوت دی ہے۔ وہ سب اپنی قوم کو بتایا۔(ان حضرات کی محنت اور دعوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ) انصار کے ہر محلہ میں کچھ نہ کچھ لوگ ضرور مسلمان ہو چکے تھے۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 290 – 291

Written by Huzaifa Ishaq

24 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments