جن لوگوں کی نقل و حرکت سے امت میں انتشار پیدا ہو، انہیں روکے رکھنا

حضرت شعبیؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو اس وقت قریش (کے بعض خاص حضرات) ان سے اکتا چکے تھے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مدینہ میں روک رکھا تھا (اور ان کے باہر جانے پر پابندی لگا رکھی تھی) اور ان پر خوب خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے اس امت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ تمہارے مختلف شہروں میں پھیلنے سے معلوم ہوتا ہے۔
۔(حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ پابندی مہاجرین میں سے بعض خاص حضرات پر لگا رکھی تھی) اور مہاجرین کے ان خاص حضرات کے علاوہ اور اہل مکہ پر یہ پابندی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں لگائی تھی۔
چنانچہ جن مہاجرین کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں رہنے کا پابند بنا رکھا تھا ان میں سے کوئی جہاد میں جانے کی اجازت مانگتا تو اس سے فرماتے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو غزوات کے سفر کر چکے ہو وہ منزل مقصود یعنی جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لئے کافی ہیں۔
آج تو غزوہ میں جانے سے تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ (یہاں مدینہ میں ہی رہو) نہ تم دنیا کو دیکھو اور نہ دنیا تمہیں دیکھے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ چند خاص حضرات اگر مختلف علاقوں میں چلے جائیں گے تو وہاں کے مسلمان ان کی ہی صحبت پر اکتفاء کر لیں گے اور مدینہ نہیں آیا کریں گے اور یوں ان کا امیر المؤمنین اور مرکز اسلام سے تعلق کمزور ہو جائے گا۔ اگر یہ حضرات مدینہ ہی میں رہیں گے تو ساری دنیا کے مسلمان مدینہ آیا کریں گے اور اس طرح ان کا امیر المؤمنین اور مرکز اسلام سے تعلق مضبوط ہوتا رہے گا اور یوں مسلمانوں میں فکر اور محنت اور ساری ترتیب میں یکسانیت رہے گی) جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے ان حضرات سے یہ پابندی اٹھالی اور انہیں جانے کی اجازت دے دی۔
یہ حضرات مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور وہاں کے مسلمانوں نے ان حضرات کی صحبت پر ہی اکتفاء کر لیا۔ اس حدیث کے راوی حضرت محمد اور حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ یہ سب سے پہلی کمزوری تھی جو اسلام میں داخل ہوئی اور یہی سب سے پہلا فتنہ تھا جوعوام میں پیدا ہوا (کہ مقامی حضرات سے تعلق زیادہ ہوگیا اور امیر المؤمنین اور مرکز اسلام سے تعلق کم ہو گیا)۔ (اخرجہ سیف وابن عساکر کذا فی الکنز 139/7)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 465 – 466