اللہ کے راستے میں پہرہ دینے کی فضیلت

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

اللہ کے راستے میں پہرہ دینے کی فضیلت

حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لوگ غزوہ حنین کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے اور خوب زیادہ چلے یہاں تک کہ دوپہر ہوگئی ۔ چنانچہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی ۔ تو ایک سوار نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ لوگوں کے آگے چلا ۔ یہاں تک کہ فلاں پہاڑ پر چڑھ گیا تو میں نے وہاں دیکھا کہ قبیلہ ہوازن اپنے والد کے پانی لانے والے اونٹ اور اپنی عورتیں اور جانور اور بکریاں لے کر سارے کے سارے حنین میں اکٹھے ہو چکے ہیں ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا ان شاء اللہ یہ سب کچھ کل مسلمانو ں کا مال غنیمت بن جائے گا ۔
پھر آپ نے فرمایا آج رات ہمارا پہراہ کون دے گا ؟
حضرت انس بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہما نے عرض کیا:۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں (پہرہ دوں گا)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا سوار ہو جاؤ ۔
چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے ۔
آپ نے ان سے فرمایا سامنے اس گھاٹی کی طرف چلے جاؤ اور اس گھاٹی کی سب سے اونچی جگہ پہنچ جاؤ ۔ (وہاں پہرہ دینا اور خوب ہوشیار ہو کر رہنا) کہیں دشمن آج رات تمہیں دھوکہ دے کر تمہاری طرف سے نہ آجائے ۔
جب صبح ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی جگہ پر تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی ۔
پھر آپ نے فرمایا کیا تمہیں اپنے سوار کا کچھ پتہ لگا ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو اس کا کچھ پتہ نہیں پھر نماز کی اقامت ہوئی اور نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ گھاٹی کی طرف رہی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری فرما کر سلام پھیرا تو فرمایا تمہیں خوشخبری ہو تمہارا سوار آگیا ہے ۔
ہم لوگوں نے گھاٹی کے درختوں کے درمیان دیکھنا شروع کیا ۔ تو وہ سوار آرہا تھا ۔ چنانچہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا اور کہا کہ میں (کل یہاں سے) چلا اور چلتے چلتے اس گھاٹی کی سب سے اونچی جگہ پہنچ گیا جہاں جانے کا مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا (میں رات بھر وہاں پہرہ دیتا رہا) صبح کو میں نے دونوں گھاٹیوں کی طرف جھانک کر غور سے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوار سے پوچھا کیا تم رات کو کسی وقت اپنی سواری سے نیچے اترے ہو ؟ اس نے کہا نہیں ۔ صرف نماز پڑھنے اور قضائے حاجت کے لئے اترا تھا ۔
آپ نے اس سے فرمایا تم نے (آج رات پہرہ دے کر اللہ کے فضل سے اپنے لئے جنت) واجب کر لی ہے (پہرہ کے) اس عمل کے بعد اگر تم کوئی بھی (نفل) عمل نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے (اس پہرہ سے تمہیں بہت ثواب ملا ہے) ۔ (اخرجہ ابو داؤد)
حضرت ابو عطیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ تشریف فرما تھے آپ کو بتایا گیا کہ ایک آدمی کا انتقال ہوگیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے اس کو خیر کا کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا جی ہاں ۔ ایک رات میں نے اس کے ساتھ اللہ کے راستہ میں پہرہ دیا ہے ۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔
جب اسے قبر میں رکھ دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس پر مٹی ڈالی ۔ پھر فرمایا تمہارے ساتھی تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تم دوزخ والوں میں سے ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم جنت والوں میں سے ہو ۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم لوگوں کے (برے) اعمال کے بارے میں نہ پوچھو بلکہ تم فطرت (والے اسلامی اعمال) کے بارے میں پوچھا کرو ۔ (اخرجہ الطبرانی)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 372 – 374

Written by Huzaifa Ishaq

25 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments