ہر شے میں اعتدال کے متعلق اسلامی تعلیمات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:۔
۔ “خوش حالی میں میانہ روی کیا ہی خوب ہے، ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی اچھی ہے اور عبادت میں درمیانی روش کیا ہی بہتر ہے”۔ (کنزالعمال)

کھانے میں اعتدال

‘‘اذا اقل الرجل الطعام ملاء جوفہ نوراً۔
۔”جو کم کھاتا ہے اس کا اندرون نور سے بھر جاتا ہے”۔
۔”کلوا فی انصاف البطون” آدھے پیٹ کھانا کھایا کرو۔
۔”ما زین اللّٰہ رجلا بزینۃ افضل من عفاف بطنہ ان کثرۃ الاکل شؤم”۔
ترجمہ:۔ اللہ نے انسان کو اس سے زیادہ کوئی زینت کی چیز نہیں دی کہ وہ اپنے معدے کو صحیح و تندرست رکھے۔ بہت کھانا بدبختی اور نحوست کی علامت ہے۔
۔“المؤمن یأکل فی معی واحد والکافر یأکل فی سبعۃ امعاء”۔ (ترمذی)
مؤمن ایک آنت بھر کھاتا ہے اور کافر سات آنت بھر کھاتا ہے۔
زیادہ کھانے سے چونکہ معدہ خراب ہو جاتا ہے اور معدے کی صحت و تندرستی پر پورے جسم کی صحت و تندرستی موقوف ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیل کی حدیث میں کیسی حکمت آمیز بات فرمائی ہے۔

۔”المعدۃ حوض البدن والعروق الیھا واردۃ فاذا صحت المعدۃ صدرت العروق بالصحۃ واذا فسدت معدۃ صدرت العروق بالسقم”۔(بیہقی)

ترجمہ:۔ “معدہ بدن کے لیے حوض ہے اور رگیں اس کی طرف آنے والی نالیاں ہیں۔ اس لیے اگر معدہ صحیح و تندرست ہے تو رگیں صحت لے کر لوٹیں گی اور اگر معدہ ہی مریض اور بیمار ہے تو رگیں بھی اس سے بیماری حاصل کریں گی”۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے:۔
۔”اے مسلمانو! کھانے پینے میں زیادتی سے بچو کیونکہ یہ عادت جسم کو بگاڑتی ہے، بیماری پیدا کرتی ہے اور نماز سے غافل کرتی ہے۔ تم پر لازم ہے کہ کھانے پینے میں اعتدال سے کام لو کیونکہ اعتدال کی عادت سے جسم کی اصلاح ہوتی ہے اور فضول خرچی نہیں ہوتی”۔

جماع میں اعتدال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نسبت فرماتے ہیں:۔
۔“یکفی المؤمن الوقعۃ فی الشھر”۔
ترجمہ:۔ “مسلمان آدمی کو مہینے میں ایک مرتبہ صحبت کرنا کافی ہے”۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ہر شخص کے لیے ایک ماہ کا کوئی ضابطہ مقرر فرما دیا ہے، حدیث میں کافی لفظ کی موجودگی بتاتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس قاعدے پر عمل کرے گا تو جہاں تک اس کی حقیقی جنسی ضرورت کا تعلق ہے، وہ اس سے پوری ہو جائے گی۔ یہ گویا عمومی ہدایت ہے جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کثرت جماع بہرحال نقصان دہ ہے۔ ایک شخص کو اپنی جسمانی قوت سے زیادہ اس عمل کو نہیں کرنا چاہیے۔
حکمائے اسلام کا مقولہ ہے
۔”من قل جماعہ فھو اصح بدنا وانقٰی جلد او اطول عمرا”۔
ترجمہ:۔ جو شخص کم جماع کرتا ہے، اس کا بدن تندرست اور جلد صاف اور پاکیزہ رہتی ہے اور اس کی عمردراز ہوتی ہے۔
معتدل ریاضت جسمانی بھی صحت کو قائم رکھنے اور زندگی کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ دین اسلام نے جہاں روحانیت کو بڑھانے کی تلقین کی ہے وہاں جسمانی ریاضت اور ورزش کی ضرورت بھی متوجہ کرائی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سنت پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم
صفحہ نمبر: 235 تا 236