اسم اعظم کے منکرین کو جواب

Idara Taleefat E Ashrafia

اسم اعظم کے منکرین کو جواب

حافظ ابوالقاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ جو لوگ اسم اعظم کے وجود کے منکر ہیں ان کے انکار کی وجہ کیا ہے ..۔
آیا یہ عقلاً محال ہے یاشرعاً محال ہے چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عقلاً بھی محال نہیں اور نہ شرعاً… عقلاً یہ بات محال نہیں ہے کہ ایک نیک عمل کو دوسرے نیک عمل پر فضیلت ہو یا ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ پر فضیلت ہو ’کیونکہ اس فضیلت کی بنیاد ثواب کی کمی یا بیشی ہے دیکھو فرائض کو نوافل پر بالاتفاق فضیلت ہے ..۔
اور نماز اور جہاد کو دوسرے اعمال پر فضیلت ہے چونکہ دعا اور ذکر بھی ایک عمل ہے تو بعید نہیں کہ کوئی دعا یاذکر جلدی قبول ہو جائے اور آخرت میں اس کا ثواب بھی زیادہ ہو ..۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ اسماء سے مراد ان کا مسمیٰ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو قدیم ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم سب برابر ہے مگر جب ہم اسے اپنی زبان پر لائیں گے تو اب یہ ہمارا کلام اور ہمارا عمل ہے جس میں تفصیل جائز ہے اور جب اسماء میں تفصیل جائز ہے تو سورتوں اور آیتوں میں بھی جائز ہو گی کیونکہ یہ تفصیل بھی راجع ہو گی تلاوت کی طرف جو کہ ہمارا فعل ہے اور ہمارا عمل ہے اس تفضیل کا تعلق متلو سے نہ ہو گا کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے..۔
اور منکرین یہ جو کہتے ہیں کہ اعظم بمعنی عظیم ہے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ:۔
قرآن کریم میں اعظم آیت کونسی ہے…انہوں نے عرض کیا اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الخ۔۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوالمنذر !تجھے تیرا علم مبارک ہو ..۔
اب اگر اعظم بمعنی عظیم ہوتا تو اس مبارک کی کیا ضرورت تھی… قرآن تو سارے کا سارا عظیم ہے اورقرآن کریم کی ہر آیت عظیم ہے… تو معلوم ہوا کہ اعظم بمعنی عظیم نہیں ہے..۔
اگر کوئی آدمی کہے کہ بعض دفعہ کوئی آدمی اسم اعظم سے دعا کرتا ہے مگر قبول نہیں ہوتی اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی اسم مبارک کے بارے میں یہ قطعی یقین نہیں کہ یہی اسم اعظم ہے… صرف ظن ہوتا ہے کیونکہ اس کی تعیین میں اختلاف ہے تو جب دعا مانگنے والے کے نزدیک ہی اسم اعظم متعین نہیں تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسم اعظم سے دعا مانگی ہے اور وہ قبول نہیں ہوئی..۔
اور اگر کہا جائے کہ ایک آدمی تمام اسمائے حسنیٰ کو جمع کر کے دعا مانگتا ہے پھر بھی اس کی حاجت پوری نہیں ہوتی تو اس کا کیا جواب ہے… ہم کہتے ہیں اس طرح اب تک کسی نے تجربہ نہیں کیا..۔
علامہ سہیلی رحمہ اللہ نے اس اعتراض کے دو جواب دئیے ہیں
یہ اسم ہم سے پہلے لوگوں کو بھی معلوم تھا مگر وہ اس کی بہت حفاظت اور عزت کیا کرتے تھے اور بغیر طہارت کے استعمال نہیں کرتے تھے اور اس اسم کا عامل متواضع اور انکساری کرنے والا ہوتا تھااور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت ہوتی تھی اور اللہ کے سوا وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔
اور جب بھی وہ کسی ہنسی یا دل لگی کی جگہ اس کا استعمال کرتا اور اس پر کماحقہ عمل نہ کرتا تو لوگوں کے دلوں سے اس کی عظمت و ہیبت ختم ہو جاتی تھی اور اس اسم سے اس کی دعا بھی قبول نہ ہوتی تھی اور نہ اس کی کوئی حاجت پوری ہوتی چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:۔
میں ان دو شخصوں سے جو آپس میں جھگڑا کرتے تھے امر بالمعروف کیا کرتا تھا اور وہ لڑائی جھگڑے کی حالت ہی میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے تو بے موقع اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی کراہت ان کے دل میں نہ رہی تھی اور نیز آپ فرماتے ہیں کہ:۔
بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا مجھے پسند نہیں تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اسم کی عظمت اور حرمت بہت عمدہ شی ہے ..۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ دعا جب دل سے ہو صرف زبان سے نہ ہو تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے مگر قبولیت کی کئی صورتیں ہیں ..۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یا توسائل کا مطلوب اسے مل جاتا ے یا اس دعا کا عوض اس کے لئے قیامت کے دن تک ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور سائل کے لئے وہ ذخیرۂ آخرت کہیں بہتر ہوتا ہے اور یا اس دعا کے سبب سے اس کے سر سے کوئی بلا ٹال دی جاتی ہے ..۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ میری امت دنیا کے کسی عذاب میں مبتلا نہ کی جائے اس لئے قبول نہ ہوئی تاکہ قیامت کے دن دنیا کے فتنوں کے عوض امت کے حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش قبول کی جائے..۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت مرحوم ہے آخرت کے دن اسے عذاب نہ ہو گا اور دنیا میں انہیں زلزلوں اور فتنوں کا عذاب ہو گا ..۔
جب دنیوی فتنے اخروی عذاب کے ٹلنے کا سبب ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مبارک ناکام نہ ہوئی بلکہ بوجہ احسن قبول ہو گئی..۔
شیخ ابوبکر فہری اس اعتراض کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگنے والے کی دعا قبول ہو گی تو ضرور قبول ہو گی ورنہ نہیں ہو گی..۔
اگر کوئی سوال کرے کہ جب یہ بات ہے تو پھر اسم اعظم سے دعا مانگنے کا کیا فائدہ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی شخص کی زبان سے اسم اعظم نکلواتا ہے جس کی حاجت روائی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اور جس کی تقدیر میں حاجت روائی نہیں ہوتی اس کو اسم اعظم نہیں دیا جاتا..۔
اگر کوئی کہے کہ سب دعاؤں کا یہی حال ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں قبولیت ہے تو دعا مانگی جاتی ہے ورنہ نہیں… اس کا جواب یہ ہے کہ سب دعاؤں کا یہ حال نہیں ہے بلکہ سب لوگ وہ دعائیں بھی مانگ لیتے ہیں جن کی دعا قبول ہونی ہوتی ہے اور وہ بھی مانگتے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہونی ہوتی اور اسم اعظم کی دعا اسی وقت زبان پر آتی ہے جبکہ قبولیت کی سب شرطیں پائی جائیں اور رکاوٹیں ختم ہو چکی ہوں..۔
پس اسم کے اعظم ہونے کا یہی معنی ہے اوراسی اصول پر سورتوں کی ایک دوسرے پر فضیلت کو سمجھنا چاہئے… اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سورۂ تبارک الذی اپنے پڑھنے والے کے حق میں جھگڑا کرے گی اور یہ فرمان کہ قل ھواللہ احد تہائی قرآن کے برابر ہے..۔

کتاب کا نام: مجربات اکابر
صفحہ نمبر: 159 – 162

Written by Huzaifa Ishaq

3 November, 2022

You May Also Like…

0 Comments