اسم اعظم کے متعلق احادیث و آثار

اب ہم ذیل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار ذکر کرتے ہیں..۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَالَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا
یعنی ان کو اس شخص کی خبر سنا دے جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں اور وہ ان میں سے نکل گیا..۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ …ابن اسحاق رحمہ اللہ …سدی رحمہ اللہ اور مقاتل رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس آدمی کا ذکر ہے وہ نبی اسرائیل کا شخص بلعم باعور تھا۔
اور اسے اسم اعظم معلوم تھا ایک دفعہ بلعم کو بادشاہ نے بلایا تو وہ چھپ گیا بالآخر پکڑا گیا اور بادشاہ نے اس سے کہا تو وہ شخص ہے جس کے پاس اسم اعظم ہے اس نے کہا ہاں ۔
بادشاہ نے کہا میرے لئے ایک بیل کی دعا کر جس سے ابھی کام نہ لیا گیا ہو اس نے دعا کی تو اسی وقت ایک سرخ رنگ کا بیل موجود ہو گیا جس کے پاس کوئی نہیں آ سکتا تھا..۔
بلعم نے اس کے پاس جا کر اس کے کان میں کوئی بات کہی اور بیل اسی وقت مر گیا …
بلعم باعور نے بادشاہ سے کہا تو بنی اسرائیل کو ستانے سے باز آور نہ تیرا بھی یہی حال ہو گا جو اس بیل کا ہوا…۔
اسی وقت وہ بادشاہ بنی اسرائیل کو ستانے سے رک گیا..۔
اوراسی قسم کی یہ آیت ہے :۔
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ
اکثر مفسرین قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں اس آیت میں جس آدمی کا ذکر ہے وہ آصف بن برخیا ہے جس نے سلیمان علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی بلقیس کا تخت لاحاضر کروں گا..۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے داہنی طرف دیکھا تو آصف بن برخیا نے اسم اعظم سے دعا مانگی… اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے تخت اٹھا کر زمین کے نیچے سے زمین کو چیرتے ہوئے لے آئے اور زمین حضرت سلیمان علیہ السلام کے آگے سے پھٹ گئی اور تخت حاضر ہو گیا..۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آصف بن برخیا نے جس اسم اعظم سے دعا مانگی تھی وہ یاحی یا قیوم تھا ..۔
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں…. آصف بن برخیا کی دعا یہ تھی ..۔
یاالٰھنا والٰہ کل شی الٰھاً واحداً لآالٰہ الا انت آئتنی بعرشھا
اس دعا سے فوراً تخت موجود ہو گیا اور بعض نے کہا اسم اعظم یاذوالجلال والاکرام ہے..۔
اور اسی قسم سے ہے آیت وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ
مفسرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہاروت و ماروت دونوں دن بھر لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے اورشام کے وقت اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے تھے… ایک دن زہرہ کا مقدمہ آ گیا جو شہر بھر کی عورتوں میں زیادہ حسین تھی اور ملک فارس کی شہزادی تھی… وہ دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو گئے اوراس کو مباشرت کے لئے کہااس نے انکار کیا اور کہا جب تک تم مجھے اسم اعظم نہیں بتلاؤ گے تمہارا کام نہ ہوگا… انہوں نے کہا اسم اعظم بسم اللہ اکبر ہے وہ اسے پڑھ کر آسمان کی طرف چڑھ گئی اور وہاں جا کر خدا کے حکم سے ستارہ بن گئی..۔
اور اکثراہل علم یہی فرماتے ہیں کہ بابل میں ان دو فرشتوں پر اسم اعظم جس کے ذریعہ زہرا آسمان پر چڑھ گئی اور دونوں فرشتے بھی غضب الٰہی نازل ہونے سے پہلے آسمان پر چڑھ جاتے تھے شیاطین نے بھی ان سے سیکھ کر اپنے دوستوں کو جادو سکھلانا شروع کر دیا تھا..۔
حدیث میں ہے کہ ملک الموت اسم اعظم کی دعا ہی سے روحیں قبض کرتا ہے..۔
ان تفصیلات سے معلوم یہ ہوا کہ اسم اعظم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاں زبان زدعام تھا کسی نے اس کا انکار نہیں کیا… ہاں اگر اختلاف ہے تو آیت کی تفسیر میں ہے اور تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول راجح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر دست مبارک مار کر فرمایا تھا ..۔
اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ التَّأْوِیْلَ
ترجمہ:۔ یا اللہ !ابن عباس کو تاویل کا علم عطا کر …اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں اسم اعظم بیان کیا ہے..۔
بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ….ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دعا میں یہ الفاظ کہتے دیکھا..۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَسْئَلُکَ اَنِّیْ اَشْھَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآاِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ الْاَحْدَ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ’ کُفُوًا اَحَدٌ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس آدمی نے اللہ تعالیٰ سے اس اسم اعظم کے وسیلے سے سوال کیا ہے..۔
وہ اسم اعظم جس کے وسیلے سے جب بھی دعا کی جائے… اللہ تعالیٰ دُعا قبول کرتا ہے اور جس کے وسیلے سے جب تھی بھی کچھ مانگا جائے اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے… (سنن ابی داؤد’ جامع الترمذی)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ..۔
وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ اور الٓمَّٓ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ایک آدمی کو یہ کہتے سنا
اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَسْئَلُکَ اَنَّکَ اَحَدٌ صَمَدٌ لَمْ تَتَّخِذْصَاحِبَۃً وَّلاَ وَلَدًا
تو آپ نے ارشاد فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے ساتھ سوال کیا ہے جس سے دعا قبول ہو جاتی ہے اور جو مانگو مل جاتا ہے..۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں پڑھ رہا تھا:۔
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لآَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ یَاحَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَاذَوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ
آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کون سے اسم کے ساتھ دعا مانگ رہا ہے ؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتے ہیں … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ شخص اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگ رہا ہے جس سے دعا قبول ہوتی ہے اور جو مانگو دیا جاتا ہے..۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اسم اعظم تین سورتوں میں ہے … سورۃ البقرہ سورۃ آل عمران اور سورۃ طٰہٰ..۔
جعفر دمشقی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے ان تین سورتوں میں غور کی نظر سے دیکھا تو مجھے ان میں ایسی چیز نظر آئی جو دوسری سورتوں میں نہیں… اور وہ آیۃ الکرسی ہے اور آل عمران میں
الٓمَّٓ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ
ہے اور طٰہٰ میں
وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ہے..۔
صاحب کتاب امام یافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اسم اعظم ….اللہ…ہے۔
چنانچہ حدیث میں بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہتے سنا اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لآَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ یَاحَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَاذَوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے اسم اعظم اللہ لآ الٰہ الا ھو کے ساتھ اپنے خدا کو پکارا ہے کیونکہ اس کا کوئی ہم نام نہیں ہے اور اس نام کے ساتھ کوئی دوسرا موسوم نہیں ہے..۔
ابو جعفر کہتا ہے کہ ابو حفص نے جو طٰہٰ میں للحی القیوم اسم اعظم نکالا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ طٰہٰ میں جو آیا ہے ..۔
اَللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلَّاھُوَ… لَہُ الْاَ سْمَآءُ الْحُسْنٰی بھی اسم اعظم ہے… اس طرح احادیث میں تطبیق ہو گئی..۔

کتاب کا نام: مجربات اکابر
صفحہ نمبر: 163 – 166