ابوجھل کے قاتل

حیات صحابہ - مولانا یوسف کاندھلوی

حضرت معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہم کی بہادری

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں (لڑنے والوں کی) صف میں کھڑا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے کھڑے ہیں مجھے خیال ہوا کہ میں قوی اور مضبوط لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا (کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کر سکتے میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ میری کیا مدد کر سکیں گے) اتنے میں ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا چچا جان ! تم ابوجہل کو بھی جانتے ہو ؟
میں نے کہا ہاں پہچانتا ہوں ۔ تمہاری کیا غرض ہے ؟
اس نے کہا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے ۔ اس پاک ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں اسے دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک وہ نہ مر جائے یا میں نہ مر جاؤں ۔
مجھے اس کے سوال اور جواب پر تعجب ہوا ۔ اتنے میں دوسرے نے بھی ہاتھ پکڑ کر یہی سوال کیا اور جو پہلے نے کہا تھا وہی اس نے بھی کہا ۔
اتنے میں میدان میں ابوجہل دوڑتا ہوا نظر آیا میں نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارا مطلوب جس کے بارے میں تم سوال کر رہے تھے وہ جا رہا ہے ۔
دونوں یہ سن کر تلواریں ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دم بھاگ چلے اور جا کر اس پر تلوار چلانی شروع کر دی یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا پھر وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قصہ سنایا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے ؟
دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اسے قتل کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں پونچھ لیں ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا کہ تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے اور ابوجہل کے سامان کا حضرت معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہما کو دینے کا فیصلہ فرمایا اور دوسرے نوجوان حضرت معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہما تھے ۔ (اخرجہ الشیخان)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 411

Written by Huzaifa Ishaq

25 October, 2022

You May Also Like…

0 Comments