حضرت عمر کی گورنر کے لئے ہدایات

حضرت عمر کی گورنر کے لئے ہدایات

امیر پر رعایا کے حقوق

حضرت اسود (بن یزید) کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی وفد آتا تو ان سے ان کے امیر کے بارے میں پوچھتے کہ کیا وہ بیمار کی عیادت کرتا ہے؟ کیا غلام کی بات سنتا ہے؟
جو ضرورت مند اس کے دروازہ پر کھڑا ہوتا ہے اس کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟
اگر وفد والے ان باتوں میں سے کسی کے جواب میں نہ کہہ دیتے تو اس امیر کو معزول کر دیتے۔

حضرت عاصم بن ابی نجود کہتے ہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب اپنے گورنروں کو (مختلف علاقوں میں گورنر بنا کر) بھیجا کرتے تو ان پر یہ شرطیں لگاتے کہ تم لوگ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوا کرو گے اور چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں کھایا کرو گے اور باریک کپڑا نہیں پہنا کرو گے اور حاجت مندوں پر اپنے دراوزے بند نہیں کرو گے اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کر لیا تو تم سزا کے حق دار بن جاؤ گے۔
پھر رخصت کرنے کے لئے ان کے ساتھ تھوڑی دور چلتے جب واپس آنے لگتے تو ان سے فرماتے میں نے تم کو مسلمانوں کے خون (بہانے) پر اور ان کی کھال (ادھیڑنے) پر اور انہیں بے آبرو کرنے پر اور ان کے مال (چھیننے) پر مسلط نہیں کیا ہے بلکہ میں تمہیں (اس علاقہ میں) اس لئے بھیج رہا ہوں تاکہ تم وہاں کے مسلمانوں میں نماز قائم کرو اور ان میں ان کا مال غنیمت تقسیم کرو اورا ن میں انصاف کے فیصلے کرو اور جب تمہیں کوئی ایسا امر پیش آ جائے جس کا حکم تم پر واضح نہ ہو تو اسے میرے سامنے پیش کرو۔
ذرا غور سے سنو! عربوں کو نہ مارنا۔ اس طرح تم ان کو ذلیل کر دو گے اور ان کو اسلامی سرحد پر جمع کر کے وطن واپسی سے روک نہ دینا۔ اس طرح تم ان کو فتنہ میں ڈال دو گے اور ان کے خلاف ایسے جرم کا دعویٰ نہ کرنا جو انہوں نے نہ کیا ہو اس طرح تم ان کو محروم کر دو گے اور قرآن کو (احادیث وغیرہ سے) الگ اور ممتاز کر کے رکھنا۔ یعنی قرآن کے ساتھ حدیثیں نہ ملانا۔

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا (اے لوگو) امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھاؤں اور تمہارے لئے تمہارے راستے صاف کر دوں۔

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 483 – 484