حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی بہادری
حضرت حارث تیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے شتر مرغ کے پر کی نشانی لگا رکھی تھی ایک مشرک نے پوچھا کہ یہ شتر مرغ کے پر کی نشانی والا آدمی کون ہے ؟
لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ہیں تو اس مشرک نے کہا یہی تو وہ آدمی ہے جنہوں نے ہمارے خلاف بڑے بڑے کارنا مے کئے ہیں ۔ (اخرجہ الطبرانی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب غزوہ احد کے دن لوگ لڑائی سے واپس آگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں میں نہ پایا ۔
تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے ان کو اس درخت کے پاس دیکھا تھا وہ یوں کہہ رہے تھے کہ میں اللہ کا شیر ہوں اور اس کے رسول کا شیر ہوں ۔
اے اللہ ! یہ ابوسفیان اور اس کے ساتھی جو کچھ فتنے لے کر آئے ہیں میں تیرے سامنے ان سب سے بری ہونے کا اظہار کرتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے ۔
جب (شہادت کی حالت میں) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشانی دیکھی تو آپ رو پڑے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ ان کے کان ناک وغیرہ کاٹ دیئے گئے ہیں تو آپ سسکیاں لے کر رونے لگے پھر آپ نے فرمایا کیا کوئی کفن ہے ؟
ایک انصاری نے کھڑے ہو کر ایک کپڑا ان پر ڈال دیا حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہوں گے ۔ (اخرجہ الحاکم)
حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری ؒ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں باہر نکلے پھر آگے باقی حدیث ذکر کی اور اس میں یہ بھی ہے کہ یہاں تک کہ ہم لوگ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے پاس جا بیٹھے اور ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ تاکہ آپ ہمیں بتائیں کہ آپ نے حضرت حمزہ کو کیسے شہید کیا تھا ؟
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں یہ قصہ اسی طرح سنا دوں گا جیسا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تھا ۔
میں حضرت جبیر بن مطعم کا غلام تھا۔ ان کا چچا طیعمہ بن عدی غزوہ بدر میں مارا گیا تھا۔ جب قریش جنگ احد کے لئے چلے تو جبیر نے مجھ سے کہا اگر تم میرے چچا کے بدلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو گے تو تم آزاد ہو اور میں ایک حبشی آدمی تھا اور حبشیوں کی طرح نیزہ پھینکا کرتا تھا اور میرا نشانہ بہت کم خطا جاتا تھا میں بھی کافروں کے ساتھ اس سفر میں گیا ۔
جب دونوں لشکروں میں مڈھ بھیڑ ہوئی تو میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کے لئے نکلا اور میں بڑے غور سے انہیں دیکھتا رہا یعنی تلاش کرتا رہا ۔ بالآخر میں نے ان کو لشکر کے کنارے پر دیکھ لیا (ان کے جسم پر گرد غبار خوب پڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے) وہ خاکستری رنگ کے اونٹ کی طرح نظر آرہے تھے اور وہ لوگوں کو اپنی تلوار سے اس زور سے ہلاک کر رہے تھے کہ ان کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی تھی ۔
اللہ کی قسم ! میں ان کے لئے تیار ہو رہا تھا ’ انہیں قتل کرنا چاہتا تھا اور کسی درخت یا بڑے پتھر کے پیچھے چھپتا پھر رہا تھا تاکہ وہ میرے قریب آجائیں کہ اتنے میں سباع بن عبدالعزیٰ مجھ سے آگے ہو کر ان کی طرف بڑھا ۔
جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس کو دیکھا تو اس سے کہا او عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بیٹے ! اور یہ کہہ کر اس پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ ایک دم سر تن سے جدا کر دیا ایسے نظر آیا کہ بلا ارادہ ہی سر کاٹ دیا ۔
پھر میں نے اپنے نیزے کو ہلایا اور جب مجھے اطمینان ہوگیا (کہ نیزہ نشانے پر جا کر لگے گا) تو میں نے ان کی طرف نیزہ پھینکا جو ان کی ناف کے نیچے جا کر اس زور سے لگا کہ دونوں ٹانگوں کے درمیان میں سے پیچھے نکل آیا وہ میری طرف اٹھنے لگے لیکن ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی پھر میں نے ان کو اور نیزے کو اسی حال پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا ۔ پھر میں ان کے قریب گیا اور اپنا نیزہ لے لیا اور پھر اپنے لشکر میں واپس آگیا اور جا کر بیٹھ گیا ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے علاوہ مجھے کوئی کام نہیں تھا اور میں نے ان کو اس لئے قتل کیا تھا تاکہ میں آزاد ہوں جاؤں ۔
چنانچہ جب میں مکہ آیا تو میں آزاد ہوگیا ۔
پھر میں وہیں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا تو میں بھاگ کر طائف چلا گیا اور وہاں جا کر ٹھہر گیا ۔
جب طائف کا وفد مسلمان ہونے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا تو سارے راستے مجھ پر بند ہوگئے اور میں نے کہا کہ شام کو چلا جاؤں یا یمن یا کسی اور جگہ ۔
میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھ سے کہا تیرا بھلا ہو ۔ اللہ کی قسم ! جو بھی کلمہ پڑھ کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جاتا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل نہیں کرتے ہیں ۔ جب اس آدمی نے یہ بات مجھے بتائی تو میں (طائف سے) چل پڑا یہاں تک کہ میں مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے آنے کا پتہ نہ چلا بلکہ) جب میں آپ کے سرہانے کلمہ شہادت پڑھنے لگا تو آپ ایک دم چونکے ۔
جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کیا تم وحشی ہو ؟
میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جی ہاں ۔
آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ تم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو کیسے قتل کیا تھا ۔ جب میں سارا واقعہ بیان کر چکا تو آپ نے مجھ سے فرمایا تیرا بھلا ہو تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لو میں تمہیں آئندہ کبھی نہ دیکھوں (یعنی تم سامنے مت آیا کرو اس سے میرے چچا کا غم تازہ ہو جاتا ہے)۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ہوا کرتے تھے میں وہاں سے ہٹ جایا کرتا تھا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مجھ پر نہ پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میں ایسے ہی کرتا رہا ۔ جب مسلمان یمامہ والے مسیلمہ کذاب سے مقابلے کے لئے چلے تو میں بھی ان کے ساتھ گیا اور میں نے اپنے جس نیزے سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اس نیزے کو بھی ساتھ لے لیا ۔ جب دونوں لشکروں میں لڑائی شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مسیلمہ کھڑا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور میں اس کو پہچانتا نہیں تھا۔
میں اسے مارنے کی تیاری کرنے لگا اور دوسری طرف سے ایک انصاری آدمی بھی اسے مارنے کی تیاری کرنے لگا ۔ ہم دونوں اسی کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ میں نے اپنے نیزے کو حرکت دی اور جب مجھے پورا اطمینان ہوگیا کہ نیزہ نشانے پر لگے گا تو وہ نیزہ میں نے اس کی طرف پھینکا جو اسے جا کر لگا اور انصاری نے بھی اس پر حملہ کیا اور اس پر تلوار کا بھرپور وار کیا ۔
تمہارا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ ہم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے اگر میں نے اسے قتل کیا ہے تو پھر میں نے ایک تو وہ آدمی قتل کیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہترین تھا اور ایک وہ آدمی قتل کیا ہے جو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ برا ہے ۔ (اخرجہ ابن اسحاق)
کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 408 – 410

حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
یہ کتاب حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی عربی کتاب
” حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم ” کا اردو ترجمہ ہے ، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت وعقیدت سے بھرپورکتاب ہے ۔ اس کی مقبولیت کے لئےاتنی بات کافی ہےکہ حضرت رحمہ اللہ کےخلوص اورللہیت کےنتیجہ میں اس کتاب کااردوترجمہ بھی کیا گیا ، گویامشائخ عرب وعجم میں یہ کتاب مقبول ہوئی ۔
زیرنظر کتاب تلخیص شدہ ہے جس میں مکررات کو حذف کرکے ہرروایت پر ایک عنوان لگادیا تاکہ علماء کرام کے علاوہ عوام الناس بھی اس سے بآسانی مستفید ہوسکیں ۔