جہاد کی تیاری میں مدد کرنا

اللہ کے راستے میں جانے والے کو تیار کرنا اور اس کی مدد کرنا

حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود غزوہ میں تشریف نہ لے جاتے تو اپنے ہتھیار حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو دے دیتے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کے ایک نوجوان نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں لیکن تیاری کے لئے میرے پاس مال نہیں ہے ۔
آپ نے فرمایا فلاں انصاری کے پاس جاؤ، اس نے جہاد کی تیاری کی ہوئی تھی اب وہ بیمار ہوگئے ہیں ۔
اس سے کہنا کہ اللہ کے رسول تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور اس سے یہ بھی کہنا کہ تم نے جہاد کے لئے جو سامان تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو ۔
چنانچہ وہ نوجوان اس انصاری کے پاس گیا اور ساری بات اس سے کہہ دی تو اس انصاری نے اپنی بیوی سے کہا اے فلانی ! تم نے جو سامان میرے لئے تیار کیا تھا وہ ان کو دے دو اور اس سامان میں سے کوئی چیز نہ رکھنا کیونکہ اللہ کی قسم ! اس میں سے جو چیز رکھو گی اس میں اللہ تعالیٰ برکت نہیں فرمائیں گے ۔ (اخرجہ ابو داؤد)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری سواری ہلاک ہوگئی ہے آپ مجھے سواری دے دیں ۔
آپ نے فرمایا اس وقت تو میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے ۔ اس پر ایک آدمی نے کہا کہ میں انہیں ایسا آدمی بتاتا ہوں جو ان کو سواری دے دے گا ۔
آپ نے فرمایا جو آدمی کسی کو خیر کا راستہ بتائے تو بتانے والے کو کرنے والے کے برابر اجر ملے گا ۔ (اخرجہ مسلم)
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کا اعلان فرمایا میں اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور وہاں سے واپس آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پہلی جماعت جا چکی تھی تو میں مدینہ میں یہ اعلان کرنے لگا کہ ہے کوئی جو ایک آدمی کو سواری دے اور سواری والے کو اس آدمی کے مال غنیمت کا حصہ سارا مل جائے گا ۔
تو ایک انصاری بڑے میاں نے کہا کہ ہم اس کے مال غنیمت کا حصہ اس شرط پر لیں گے (اس کو مستقل سواری نہیں دیں گے بلکہ) باری پر ہم اس کو سوار کریں گے اور وہ کھانا بھی ہمارے ساتھ کھائے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ اس نے کہا پھر اللہ کا نام لے کر چلو ۔ میں اس اچھے ساتھی کے ساتھ چل پڑا ۔
جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مال غنیمت دیا تو میرے حصہ میں کچھ جوان اونٹ آئے ۔ میں وہ اونٹ ہانک کر اپنے اس ساتھی کے پاس لے گیا وہ باہر آیا اور ایک اونٹ کے پیچھے کے تھیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ان اونٹوں کو پیچھے لے جاؤ (میں لے گیا) پھر اس نے کہا ان کو آگے لے جاؤ (میں ان کو آگے لے گیا) پھر اس نے کہا مجھے تو تمہارے یہ جوان اونٹ بڑے عمدہ نظر آرہے ہیں ۔
میں نے کہا یہی تو وہ مال غنیمت ہے جس کے دینے کا میں نے اعلان کیا تھا اس بڑے میاں نے کہا تم اپنے یہ جوان اونٹ لے جاؤ اے میرے بھتیجے ! ہمارا ارادہ تو تمہارے مال غنیمت کے علاوہ کچھ اور لینے کا تھا ۔
اس کے بدلہ میں ہم دنیا میں مزدوری لینا نہیں چاہتے بلکہ ہمارا ارادہ تو اجر و ثواب میں شریک ہونے کا تھا ۔ (اخرجہ البیہقی)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے راستہ میں کسی کو کوڑا دوں یہ مجھے ایک حج کے بعد دوسرا حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ (اخرجہ الطبرانی)

کتاب کا نام: حیات صحابہ – مولانا یوسف کاندھلوی
صفحہ نمبر: 427 – 429